انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عالمی قرضوں کی تشکیل نو سے ترقی پذیر ممالک 148 ارب ڈالر بچا سکتے ہیں: یو این ڈی پی

تنزانیہ میں طلباء پائیدار ترقی کے اہداف بارے پلے کارڈ دکھا رہے ہیں۔
UN News
تنزانیہ میں طلباء پائیدار ترقی کے اہداف بارے پلے کارڈ دکھا رہے ہیں۔

عالمی قرضوں کی تشکیل نو سے ترقی پذیر ممالک 148 ارب ڈالر بچا سکتے ہیں: یو این ڈی پی

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے ایک پالیسی بریف میں کہا ہے کہ اگر عالمی برادری اپنے موجودہ قرض کی تشکیل نو کرے اور مستقبل کے لیے سستے مالی وسائل تک رسائی کو وسعت دے تو ترقی پذیر معیشتیں 148 بلین ڈالر کی بچت کر سکتی ہیں۔

'بحران سے نکلنے کے اجزائے ترکیبی: ایس ڈی جی کے لیے اقوام متحدہ کا عمل انگیز منصوبہ' کے عنوان سے یہ رپورٹ جمعے کو انڈیا کے شہر بنگلور میں شروع ہونے والے جی20 ممالک کے وزرائے خارجہ اور مرکزی بینکوں کے گورنروں کے اجلاس سے پہلے جاری کی گئی ہے۔

Tweet URL

یو این ڈی پی نے ترقی پذیر ممالک کو دور حاضر کے متراکب بحرانوں کے اثرات سے تحفظ دینے کے لیے عملی اقدامات کے لیے کہا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں یہ یقینی بنایا جائے کہ ان ممالک کو مالی وسائل کی فراہمی ایک منصفانہ، مشمولہ اور مساوی عالمگیر تبدیلی سے ہم آہنگ ہو۔

عالمگیر مالیات میں تبدیلی

یو این ڈی پی کے منتظم ایکم سٹینر نے کہا ہے کہ ''عالمگیر مالیاتی نظام میں تبدیلی لانے کے اجزائے ترکیبی جیسا کہ بینکاری کے شعبے میں کثیرالجہتی اصلاحات، قرض کی تشکیل نو اور سرمایے کی فراہمی پر جی20 اجلاس میں پہلے ہی بات ہوتی چلی آئی ہے۔ لیکن ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ہمیں اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔''

پالیسی بریف میں کم اور متوسط آمدنی والی 52 ترقی پذیر معیشتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو یا تو قرض کے بوجھ تلے دبی ہیں یا انہیں اس کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ مجموعی طور پر، دنیا کی 40 فیصد سے زیادہ غریب ترین آبادی انہی ممالک میں ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان ممالک کے 2021 کے سرکاری بیرونی قرضے میں 30 فیصد کمی انہیں آٹھ سال کے لیے سود اور اصل رقم سمیت قرض کی ادائیگی میں 148 بلین ڈالر تک کی بچت کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

بھاری قرضوں کا بوجھ

یو این ڈی پی نے کہا ہے کہ اس وقت 25 ترقی پذیر معیشتوں کے ذمے قرض کی واجب الادا رقم ان کی مجموعی آمدنی کے 20 فیصد سے زیادہ ہے اور یہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں ایسے ممالک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ صورتحال ضروری خدمات پر اٹھنے والے ان کے اخراجات پر اثرانداز ہوتی ہے جن میں موسمیاتی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔

ایکم سٹینر نے کہا کہ ''قرض کے انتہائی بوجھ تلے دبے اور مالی وسائل تک رسائی سے محروم ممالک کو کئی طرح کے دیگر بحرانوں کا سامنا بھی ہے۔ ان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو کووڈ۔19 کے معاشی اثرات، غربت اور بڑھتے ہوئے موسمیاتی ہنگامی حالات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ ''امیر اور غریب ممالک میں بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنے، کثیرفریقی منظرنامے میں تبدیلی اور ہماری پیچیدہ، باہم مربوط اور کووڈ کے بعد کی دنیا کے لیے قرض کی موزوں تشکیل نو کا وقت آ گیا ہے۔''

ایس ڈی جی عمل انگیز منصوبہ

پالیسی بریف میں بتایا گیا کہ کیسے کم قیمت اور طویل مدتی میچورٹی فنڈنگ تک رسائی کو وسعت دے کر ''ٹھوس مالیاتی گنجائش'' نکالی جا سکتی ہے۔ یہ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے عمل انگیز منصوبے کے دو خاص حصے ہیں جو گزشتہ ہفتے جاری کیا گیا ہے۔

اگر ترقی پذیر معیشتیں 14 فیصد شرح سود پر قرض لیتی رہیں اور اپنی 20 فیصد سے زیادہ آمدنی قرض کی ادائیگی پر خرچ کرتی رہیں تو وہ ترقیاتی اہداف یا موسمیاتی وعدوں پر پیش رفت کے لیے مالی وسائل مہیا نہیں کر سکتیں۔

پائیدار ترقی کے 17 اہداف مزید منصفانہ، مساوی اور ''ماحول دوست'' مستقبل کا خاکہ پیش کرتے ہیں۔ ان اہداف کو 2030 تک حاصل کیا جانا ہے۔

یو این ڈی پی کے چیف اکانومسٹ جارج گرے مولینا نے کہا ہے کہ اگر ترقی پذیر معیشتیں 14 فیصد شرح سود پر قرض لیتی رہیں اور اپنی 20 فیصد سے زیادہ آمدنی قرض کی ادائیگی پر خرچ کرتی رہیں تو وہ ان اہداف یا موسمیاتی وعدوں پر پیش رفت کے لیے مالی وسائل مہیا نہیں کر سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ ''یو این ڈی پی نے اربوں ڈالر کی جس بچت کا تذکرہ کیا ہے وہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم اجتماعی طور پر متفق ہوں کہ یہ ترقیاتی عمل کو خدشات سے پاک کرنے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا وقت ہے۔''

پالیسی بریف میں مزید بتایا گیا ہے کہ کیسے متوسط آمدنی والے ممالک کے تمسکاتی قرض کی ''دوبارہ سرمایہ کاری'' کے ذریعے مزید 120 ارب ڈالر کی بچت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

اس میں ایس ڈی جی اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے سے ہم آہنگ سرمایہ کاری کے لیے قرض  کی لاگت کو کم کرنے کے امکانات بھی اجاگر کیے گئے ہیں۔