انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سوڈانی فورسز میں لڑائی کی کڑی مذمت

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کا ایک منظر۔ آر ایس ایف نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خرطوم انٹرنیشنل ایئرپورٹ، میروئے ایئرپورٹ، ال عبید ایئرپورٹ اور صدارتی محل پر قبضہ کر لیا ہے۔
UN News/Abdelmonem Makki
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کا ایک منظر۔ آر ایس ایف نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خرطوم انٹرنیشنل ایئرپورٹ، میروئے ایئرپورٹ، ال عبید ایئرپورٹ اور صدارتی محل پر قبضہ کر لیا ہے۔

سوڈانی فورسز میں لڑائی کی کڑی مذمت

امن اور سلامتی

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں مسلح لڑائی کی اطلاعات کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اور ملک میں ادارے کے مشن کے سربراہ نے تشدد کی کڑی مذمت کی ہے اور دیگر اعلیٰ حکام نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی حکام نے 'ریپڈ سپورٹ فورس' (آر ایس ایف) اور سوڈان کی مسلح افواج (ایس اے ایف) کے مابین جھڑپوں کو تشویش ناک قرار دیا ہے جو دارالحکومت خرطوم میں متعدد جگہوں پر اور اس سے باہر دیگر علاقوں میں ہفتے کی صبح شروع ہوئیں۔

Tweet URL

اطلاعات کے مطابق 'آر ایس ایف' نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خرطوم انٹرنیشنل ایئرپورٹ، میروئے ایئرپورٹ، ال عبید ایئرپورٹ اور صدارتی محل پر قبضہ کر لیا ہے۔

آر ایس ایف سوڈان کی ایک آزاد فوج ہے جس نے جنجاوید ملیشیا سے جنم لیا جو قبل ازیں ملک کے ایک حصے ڈارفر میں متحرک تھی۔ یہ تنظیم 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد فوج سے سویلین حکومت کی جانب منتقلی کے لیے ہونے والی بات چیت میں بھی شامل رہی ہے۔

'لڑائی فوری بند کریں'

سیکرٹری جنرل کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں 'ریپڈ سپورٹ فورسز' اور سوڈان کی مسلح افواج کے رہنماؤں سے کہا گیا ہے کہ وہ ''لڑائی فوری بند کریں، امن بحال کریں اور موجودہ بحران کو حل کرنے کے لیے بات چیت شروع کریں۔ بیان میں اس خطے سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ امن عامہ کی بحالی اور حکومت کی سویلین ہاتھوں کو منتقلی کی راہ پر واپسی کے لیے مدد دیں۔

'آر ایس ایف' کا مسلح افواج میں ادغام اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے سیاسی معاہدے میں زیر بحث آنے والے مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ معاہدہ کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد فروری میں طے پایا تھا۔ 

تاہم 20 مارچ کو سلامتی کونسل میں ایک بریفنگ کے دوران سوڈان کے لیے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے اور ملک میں مربوط منتقلی میں مدد دینے کے لیے اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ وولکر پرتھیس نے خبردار کیا کہ حالیہ ہفتوں میں سوڈان کی فوج اور آر ایس ایف کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں ںے تناؤ میں کمی لانے کے لیے بھی کہا۔

وولکر پرتھیس نے حالیہ لڑائی پر اپنے بیان میں دونوں فریقین سے کہا ہے کہ وہ لڑائی فوری بند کریں، سوڈان کے لوگوں کا تحفظ یقینی بنائیں اور ملک کو مزید تشدد سے بچائیں۔

انتونیو گوتیرش نے لڑائی میں اضافے کی صورت میں شہریوں پر اس کے ''تباہ کن'' اثرات کے خدشات ظاہر کیے ہیں اور  کہا ہے کہ اس سے ملک میں پہلے سے نازک صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔

امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ

ہنگامی امدادی کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا ہے کہ مزید تشدد سے قریباً 16 ملین ایسے لوگوں کے لیے حالات مزید بگڑ جائیں گے جنہیں انسانی امداد کی ضرورت ہے اور جو ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہیں۔

سوڈان میں انسانی صورتحال کے حوالے سے 13 اپریل کو امدادی امور سے متعلق اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر کی جانب سے جاری ہونے والی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں امدادی ضروریات ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں اور قدرتی آفات، وبائیں پھوٹنے اور معاشی بگاڑ کے ساتھ مسلح لڑائی ملک کو درپیش چوتھا اہم ترین خطرہ بن گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے سامنے آنے والے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ سوڈان کے عوام ''بہتر کے حق دار ہیں۔'' انہوں نے لکھا ہے کہ تشدد کو روکنے اور امن و سویلین حکومت کی جانب منتقلی کے لیے سابقہ امید افزا راستے پر واپس جانے کی غرض سے اس وقت ''معقولیت'' کی فوری ضرورت ہے۔