انسانی کہانیاں عالمی تناظر

شمالی کوریا: جبری گمشدگیوں کے معاملے میں سچ اور انصاف کی تلاش

شمالی کوریا کے شہر پیانگیانگ کی ایک گلی۔
UNICEF/Jeremy Horner
شمالی کوریا کے شہر پیانگیانگ کی ایک گلی۔

شمالی کوریا: جبری گمشدگیوں کے معاملے میں سچ اور انصاف کی تلاش

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے کہا ہے کہ شمالی کوریا میں ریاستی سطح پر اغوا اور جبری گمشدگیوں کی ''المناک'' داستانیں ملکی حکام کی جانب سے کارروائی کا تقاضا کرتی ہیں۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کی جاری کردہ نئی رپورٹ میں 1950 سے اب تک ملک میں جبری گمشدگیوں اور اغوا کے واقعات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

Tweet URL

وولکر تُرک کا کہنا ہے کہ قریباً 80 متاثرین کی دل شکن گواہیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے یہ جرائم ان کے لیے طویل مدتی صدمات کا باعث بنے۔ خاندانوں کی پوری نسلوں نے اس غم میں زندگیاں گزاری ہیں کہ نہ جانے ان کے شریک حیات، والدین، بچوں اور بہن بھائیوں کے ساتھ کیا بیتی۔''

انہوں نے کہا کہ ''لوگوں کو جبراً لاپتہ کیا جانا ''بیک وقت بہت سے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔''

انہوں ںے شمالی کوریا سے کہا کہ وہ اپنے لوگوں کے اغوا اور گمشدگیوں کو تسلیم کرے، ایسے واقعات کا پتا چلائے اور انسانی حقوق سے متعلق اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرے۔

انہوں نے کہا کہ ''ہمیں دہائیوں پہلے پیش آنے والے ایسے واقعات کے حوالے سے احتساب، شفافیت اور ازالے کو ممکن بنانے کے لیے بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے۔'' 

ملکی و غیرملکی شہریوں کا اغوا اور گمشدگیاں

رپورٹ میں 1950 سے 2016 تک جبری گمشدگیوں اور اغوا کے کئی طرح کے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان واقعات کی دو اقسام ہیں۔ ان میں ایک شمالی کوریا کے اندر اس کے شہریوں کی ناجائز گرفتاری سے متعلق ہیں۔ ان لوگوں کا کسی کو اتا پتا نہیں اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی بھی کسی کو خبر نہیں ہوئی۔ دوسری طرح کے واقعات غیرملکیوں کی جبری گمشدگی سے متعلق ہیں۔

ان میں کوریا کی جنگ کے دوران اور اس کے بعد جمہوریہ کوریا کے شہریوں کے اغوا، جنگی قیدیوں کی عدم واپسی اور جاپان اور دوسرے ممالک کے شہریوں کا اغوا اور ان کی جبری گمشدگیاں شامل ہیں۔

'خاندان ٹوٹ گئے، روزگار ختم ہو گئے'

''یہ زخم بھرتے نہیں'' کے عنوان سے اس رپورٹ میں متاثرین اور ان کے خاندانوں کو پہنچنے والے ''شدید اور متواتر نفسیاتی نقصان'' کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ گمشدہ لوگوں کے عزیزوں نے اس شدید پریشانی اور صدمے کے بارے میں بتایا جو انہیں جھیلنا پڑا جبکہ انہیں کہیں سے بھی نفسیاتی مدد میسر نہیں تھی۔

حقوق کی ان پامالیوں سے خاندانوں پر شدید معاشی اثرات بھی مرتب ہوئے اور خاص طور پر وہ خاندان زیادہ شدت سے متاثر ہوئے جن کے اغوا ہونے والے افراد مرد تھے۔ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''خاندان میں روایتی طور پر روزی کمانے والے مرکزی فرد کی مدد کے بغیر ایسے وقت میں پورے گھرانوں کا بوجھ خواتین کے کندھوں پر آن پڑا جب ان کی نگرانی کی جاتی تھی اور انہیں شبے کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ان حالات سے جنم لینے والی پسماندگی اور غربت نے خاندانوں کی پوری نسلوں کو بری طرح متاثر کیا۔

شمالی کوریا کے شہر نیمپو کے ایک کلینک میں بچوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک دی جا رہی ہے۔
© UNICEF/Olga Basurmanova
شمالی کوریا کے شہر نیمپو کے ایک کلینک میں بچوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک دی جا رہی ہے۔

دیرینہ الزامات

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق اداروں نے شمالی کوریا کی ریاست پر جبری گمشدگیوں کے الزامات کی ''تفصیلی روداد'' تیار کی ہے اور اس کے نتائج 2014 کے تحقیقاتی کمیشن (سی او آئی) کے نتائج کی تصدیق کرتے ہیں۔

سی او آئی نے قرار دیا تھا کہ شمالی کوریا کی حکومت 1950 سے لوگوں کو جبراً لاپتہ کرنے کی ریاستی پالیسی پر کاربند رہی ہے۔ ''منظم اغوا، قیدیوں کی واپسی سے انکار اور دوسرے ممالک کے لوگوں کی بڑے پیمانے پر جبری گمشدگیاں ریاستی پالیسی کا معاملہ ہیں اور یہ انسانیت کے خلاف جرائم کی ذیل میں آتی ہیں۔

احتساب کا مطالبہ

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ گمشدہ افراد کے اہلخانہ یہ سچائی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے پیاروں پر کیا گزری۔

رپورٹ کے مطابق حقوق کی پامالیوں کی سنگینی شمالی کوریا کی جانب سے اقدامات اور مناسب تحقیقات کا تقاضا کرتی ہے اور ''ایسے واقعات کے ذمہ داروں کو ملکی یا بین الاقوامی عدالتوں میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے جو منصفانہ قانونی کارروائی کے حوالے سے عالمی معیارات کو پورا کرتی ہوں۔''

متاثرین کو انصاف کی فراہمی کے ساتھ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور انہیں پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ بھی ہونا چاہیے۔ رپورٹ میں 'او ایچ سی ایچ آر' نے معاوضے سے بڑھ کر ازالے کے ''جامع'' پروگرام شروع کرنے کے لیے کہا ہے جنہیں عملی جامہ پہنانے میں خود متاثرین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔