انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کم ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس میں نوجوانوں کے حقوق کا چرچا

آج دنیا میں 10 سے 24 سال تک عمر کے لوگوں کی تعداد 1.8 بلین ہے جو تاریخ میں اس نسل کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
UN News/Anold Kayanda & Basma Baghal
آج دنیا میں 10 سے 24 سال تک عمر کے لوگوں کی تعداد 1.8 بلین ہے جو تاریخ میں اس نسل کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

کم ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس میں نوجوانوں کے حقوق کا چرچا

پائیدار ترقی کے اہداف

46 کم ترین ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) کے قریباً 226 ملین نوجوانوں کی نمائندگی کرنے والے درجنوں مندوبین دوحہ، قطر میں جاری اقوام متحدہ کی بڑی کانفرنس میں نمایاں رہے جس میں انہیں اور ان کے ملکوں کو متاثر کرنے والے ترقیاتی مسائل کو واضح کیا جانا ہے۔

آج دنیا میں 10 سے 24 سال تک عمر کے لوگوں کی تعداد 1.8 بلین ہے جو تاریخ میں اس نسل کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس عمر کے تقریباً 90 فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں جہاں وہ آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔

تاہم، دنیا بھر میں نوجوان گزشتہ نسلوں کے پیدا کردہ مسائل کے نتائج کا سامنا کر رہے ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے لے کر کووڈ۔19 وبا کے موجودہ عالمگیر طبی و سماجی۔معاشی اثرات تک بہت سے سنگین مسائل شامل ہیں۔ ان تمام حالات میں پہلے ہی معاشی و ماحولیاتی دھچکوں کا سامنا کرنے والے اور کم ترین انسانی اثاثوں کے حامل ایل ڈی سی کے نوجوانوں کا حال اور مستقبل انتہائی غیرمحفوظ ہے۔

اس پس منظر میں کم ترین ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں پانچویں کانفرنس (ایل ڈی سی 5) یہ یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے کہ نوجوانوں کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کر کے اور انہیں ترقی کا پہیہ آگے بڑھانے کے لیے بااختیار بناتے ہوئے دوحہ پروگرام آف ایکشن (ڈی پی او اے) کو عملہ جامہ پہنانے کے منصوبوں میں انہیں مرکزی جگہ دی جائے۔

یو این او ایچ آر ایل ایل ایس کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی نمائندہ رباب فاطمہ نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے نوجوانوں کو اپنے کام میں بامعنی طور سے شامل نہ کیا تو 2030 کے ایجنڈے سے متعلق اہداف نامکمل رہیں گے۔
UN Photo/Evan Schneider
یو این او ایچ آر ایل ایل ایس کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی نمائندہ رباب فاطمہ نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے نوجوانوں کو اپنے کام میں بامعنی طور سے شامل نہ کیا تو 2030 کے ایجنڈے سے متعلق اہداف نامکمل رہیں گے۔

  'کوئی نسل پیچھے نہ رہے'

ایل ڈی سی 5' میں ایک بین النسلی بات چیت کے دوران کم ترین ترقی یافتہ ممالک، خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک (یو این او ایچ آر ایل ایل ایس) کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی نمائندہ رباب فاطمہ نے خبردار کیا کہ ''اگر ہم نے نوجوانوں کو اپنے کام میں بامعنی طور سے شامل نہ کیا تو 'ڈی پی او اے' اور 2030 کے ایجنڈے سے متعلق ہمارے اہداف نامکمل رہیں گے۔

اس بات چیت میں ایل ڈی سی کے نوجوانوں نے عالمی رہنماؤں، سربراہان ریاست و حکومت، فیصلہ سازوں، اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی حکام اور سفارت کاروں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔

فاطمہ رباب 'ایل ڈی سی 5'کانفرنس کی سیکرٹری جنرل بھی ہیں جنہوں نے واضح کیا کہ’’ ہمیں نوجوانوں کی بات سننا ہو گی اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل اور آئندہ اقدامات کا حصہ بنانا ہو گا کیونکہ ان فیصلوں کے نتائج سے وہی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔''

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ''اس کانفرنس کے حوالے سے ہمارا ہمیشہ یہی عزم رہا ہے کہ معاشرے کے ہر حصے، تمام فیصلہ سازوں، نجی شعبے، نوجوانوں، سول سوسائٹی کے اداروں اور تمام دیگر فریقین کو اکٹھا کر کے یہ یقینی بنایا جائے کہ سبھی کی بات سنی جائے، ہر تصور کا جائزہ لیا جائے اور کوئی نسل پیچھے نہ رہے۔''

متعامل بات چیت کے دوران نوجوانوں نے اپنے اقدامات، تصورات اور بہترین طریقہ ہائے کار کا تبادلہ کیا اور دوحہ عملی مںصوبے پر عملدرآمد کی راہ میں حائل مسائل کی نشاندہی کی جبکہ رکن ممالک اور دیگر متعلقہ فریقین نے اس کے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر نفاذ میں نوجوانوں کی شمولیت سے متعلق وعدے کیے۔

کم ترقی یافتہ ممالک کی دوحہ میں جاری کانفرنس کے دوران نوجوانوں کے نمائندے صلاح مشورہ کرتے ہوئے۔
UN Photo/Sajeesh Babu
کم ترقی یافتہ ممالک کی دوحہ میں جاری کانفرنس کے دوران نوجوانوں کے نمائندے صلاح مشورہ کرتے ہوئے۔

نوجوانوں کی معاشی شمولیت کا فروغ

آج کانفرنس کا ایک سیشن نوجوانوں کی معاشی شمولیت اور ان کی کاروباری صلاحیتوں سے متعلق تھا جس میں نوجوانوں کو ترغیب دینے اور انہیں بااختیار بنانے پر بات چیت کی گئی۔

اقوام متحدہ کے صنعتی ترقیاتی ادارے (یو این آئی ڈی او) میں زرعی معاشیات کے ڈائریکٹر ڈیجین ٹیزیرا نے ہر ترقیاتی عمل میں نوجوانوں کے خیالات مدنظر رکھنے کی اہمیت پر بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ''یہ ہمارے لیے ایک انتخاب نہیں بلکہ ہماری لازمی ضرورت ہے۔'' انہوں نے واضح کیا کہ آج دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے اور اس کی بڑی اکثریت ترقی پذیر ممالک میں رہتی ہے اس لیے واضح طور پر ترقی کے عمل میں تعلیم، ہنر کی تربیت اور روزگار سے متعلق ان کی آوازوں، تجربات اور خیالات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آئندہ دہائی میں تقریباً 600 ملین نوکریاں تخلیق کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں مناسب صلاحیتوں سے بہرہ ور کرنے اور انہیں سیکھنے اور اچھا کام ڈھونڈنے کے قابل بنانے یا مشمولہ اور پائیدار صنعتی ترقی کے ذریعے کاروباری منتظمین بننے اور بہتر مستقبل کے لیے مواقع تخلیق کرنے کی غرض سے مزید کوششیں درکار ہیں۔