انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کم ترقی یافتہ ممالک کی مدد نہ کرنے کا اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا: گوتیرش

دوحہ، قطر: سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کی پانچویں کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/Evan Schneider
دوحہ، قطر: سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کی پانچویں کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔

کم ترقی یافتہ ممالک کی مدد نہ کرنے کا اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا: گوتیرش

پائیدار ترقی کے اہداف

عالمی رہنما دوحہ میں اقوام متحدہ کی ایک اہم کانفرنس کے لیے جمع ہیں جس کا مقصد ایسے کمزرو ترین ممالک میں دیرپا ترقی لانا ہے جہاں عالمی مدد کی اشد ضرورت ہے اور ان ممالک کی بھرپور صلاحیتوں کو سامنے لانا اور انہیں خوشحالی کی راہ پر ڈالنا ہے۔

دنیا کی جانب سے کووڈ۔19 کے خلاف بہت بڑی جدوجہد شروع کرنے سے تین سال بعد کم ترین ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) بڑھتے ہوئے بحرانوں، غیریقینی صورتحال، موسمیاتی ابتری اور شدید عالمی ناانصافی سے دوچار ہیں۔ یہ ایسے ممالک ہیں جو پہلے ہی پائیدار ترقی کی راہ پر کڑی ساختیاتی رکاوٹوں سے نبردآزما تھے اور معاشی و ماحولیاتی دھچکوں کا سامنا کر رہے تھے۔

Tweet URL

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے 5 تا 9 مارچ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری رہنے والی کم ترین ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں اقوام متحدہ کی پانچویں کانفرنس (ایل ڈی سی 5) سے خطاب میں کہا ہے کہ ''صحت اور تعلیم سے لے کر سماجی تحفظ، بنیادی ڈھانچے اور نوکریوں کی تخلیق تک، بہت سے نظام بوجھ تلے دبے ہیں یا وجود ہی نہیں رکھتے۔''

انہوں ںے زور دے کر کہا کہ امیر ممالک کی جانب سے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بنائے جانے والے عالمگیر مالیاتی نظام نے ایل ڈی سی کے ساتھ شدید ناانصافی کی ہے جنہیں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ شرح سود پر اپنے قرضے واپس کرنا ہوتے ہیں۔ ''آج 25 ترقی پذیر معیشتیں اپنی حکومتی آمدنی کا 20 فیصد سے زیادہ محض قرض کی ادائیگی پر صرف کر رہی ہیں۔''

نتیجتاً، ان کا کہنا تھا کہ ایل ڈی سی کو تین بڑے شعبوں میں ''انقلابی تعاون کی ضرورت'' ہے۔

فوری مدد کی ضرورت

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ سب سے پہلے دنیا کے کمزور ترین ممالک کو پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لیے فوری مدد کی ضرورت ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کو سالانہ کم از کم 500 بلین ڈالر کی فراہمی بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے مزید بہانے ناقابل قبول ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ایک نئی بریٹن وڈ سوچ کے ذریعے عالمگیر مالیاتی نظام میں اصلاحات لانا ضروری ہو گا۔ ہمیں ممالک کی معیشتوں کا جائزہ لینے کے لیے مجموعی قومی پیداوار سے ہٹ کر قرض دینے کے معیار جیسے نئے اور عام فہم طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔''

موسمیاتی تعاون میں اضافہ

گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایل ڈی سی کا بہت کم حصہ ہے لیکن وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سامنے خاص طور پر غیرمحفوظ ہیں۔

انتونیو گوتیرش نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ کم ترین ترقی یافتہ ممالک کو ضروری مدد کی فراہمی کے لیے انہیں 100 بلین ڈالر مہیا کرنے کا وعدہ پورا کریں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹںے کے لیے مالی وسائل تک ان کی رسائی کو آسان بنائیں، اقوام متحدہ کی سرپرسی میں قائم 'ماحول دوست موسمیاتی فنڈ' میں مالی وسائل کو پورا کریں اور آئندہ پانچ برس میں دنیا کے ہر فرد کو آفات کے بارے میں بروقت آگاہی دینے کا نظام مہیا کریں۔

ان اور دیگر اہم مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے مندوبین کو بتایا کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں موسمیاتی عزم سے متعلق کانفرنس کا انعقاد کریں گے تاکہ الفاظ کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اور ''موسمیاتی بحران سے براہ راست اور شدید طور سے متاثر ہونے والے ممالک کو انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔''

کانفرنس کے دوران ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک جنہیں ’گلوبل ساؤتھ‘ بھی کہا جاتا ہے کے باہمی تعاون کے لیے دوہا میں اقوام متحدہ کے دفتر یو این او ایس ایس سی کا افتتاح بھی کیا گیا۔
@UNOSSC Dingding Sun
کانفرنس کے دوران ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک جنہیں ’گلوبل ساؤتھ‘ بھی کہا جاتا ہے کے باہمی تعاون کے لیے دوہا میں اقوام متحدہ کے دفتر یو این او ایس ایس سی کا افتتاح بھی کیا گیا۔

وعدے پورے کریں!

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ''وعدے توڑنے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ آئیے کم ترین ترقی یافتہ ممالک کی ضروریات کو اپنے منصوبوں، اپنی ترجیحات اور اپنی سرمایہ کاری میں اولیت دیں۔''

وبا کے آغاز سے اب تک ناکافی وسائل وسائل کے باعث 46 ایل ڈی سی کو اس بیماری پر قابو پانے اور بڑھتے ہوئے قرض سے نمٹںے میں کڑی مشکلات کا سامنا رہا ہے جس نے ان کی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کی وسیع کوششوں کے باوجود ایل ڈی سی کی ایک تہائی آبادی شدید غربت کا شکار ہے۔

دوحہ پروگرام آف ایکشن کیا ہے؟

مارچ 2023 میں 2022 سے 2031 تک کی دہائی کے لیے کم ترین ترقی یافتہ ممالک کے لیے دوحہ پروگرام آف ایکشن (ڈی پی او اے) کی منظوری دی گئی جس کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ کمزور ترین ممالک کو بین الاقوامی ایجںڈے میں دوبارہ سرفہرست لایا جائے۔

'ڈی پی او اے میں چھ اہم اقدامات پر مرکوز کی گئی ہے: 

  1. کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں پر سرمایہ کاری: غربت کا خاتمہ اور سبھی کی ترقی کے لیے صلاحیتوں میں اضافے کے اقدامات۔
  2. کثیرالجہتی کمزوریوں پر قابو پانے اور ایس ڈی جی کے حصول کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کی طاقت کو استعمال میں لانا۔
  3. خوشحالی کے محرک کے طور پر ساختیاتی تبدیلی لانے میں مدد دینا۔
  4. ایل ڈی سی کی بین الاقوامی تجارت اور ان کے علاقائی انضمام میں اضافہ کرنا۔
  5. موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی انحطاط پر قابو پانا، کووڈ۔19 سے بحالی اور خدشات سے آگاہی کی بنیاد پر پائیدار ترقی کے لیے آئندہ بحرانوں کے خلاف مضبوطی پیدا کرنا۔
  6. عالمی یکجہتی کا اہتمام، عالمگیر شراکتوں، اختراعی وسیلوں اور ذرائع کو تقویت دینے کے اقدامات: بلند معاشی درجے کی جانب پائیدار مراجعت

'ڈی پی او اے' پر مکمل عملدرآمد سے ایل ڈی سی کو اس وقت جاری کووڈ۔19 وبا اور اس کے منفی سماجی معاشی اثرات سے نمٹنے، ایس ڈی جی کے حصول کے لیے درست راہ پر واپس آنے، موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پر قابو پانے اور بہتر معاشی درجے کی جانب پائیدار اور ناقابل واپسی ترقی میں مدد ملے گی۔