انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تمام ممالک سزائے موت ختم کر دیں: انسانی حقوق سربراہ

واشنگٹن میں امریکی سپریم کورٹ کے سامنے سزائے موت کے خلاف مظاہرہ ہو رہا ہے۔
Unsplash/Maria Oswalt
واشنگٹن میں امریکی سپریم کورٹ کے سامنے سزائے موت کے خلاف مظاہرہ ہو رہا ہے۔

تمام ممالک سزائے موت ختم کر دیں: انسانی حقوق سربراہ

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے تمام ممالک سے کہا ہے کہ وہ سزائے موت کو ختم کرنے کے لیے محنت کریں۔ اس وقت موت کی سزا دنیا کے 79 ممالک میں رائج ہے۔

سزائے موت دیے جانے سے منسلک انسانی حقوق کی پامالیاں اور خاص طور پر اس سزا کو صرف انتہائی سنگین جرائم تک محدود رکھنا جینیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے دو سالہ اعلیٰ سطحی گروہی مباحثے کا بنیادی موضوع ہے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے چارٹر کا وعدہ

وولکر تُرک نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کے جذبے کے تحت تمام انسانوں کے تحفظ کے اعلیٰ ترین معیارات کے وعدے کا معاملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''سزائے موت کو معطل کرنے کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ اس طرح متاثرین کے حقوق نظرانداز ہوتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انتقام ہی بہترین ردعمل ہے۔ ہائی کمشنر نے سوال کیا کہ انسانیت میں بدلہ کہاں ہے؟ کیا ہم دوسرے انسانوں کو ان کی زندگیوں سے محروم کر کے اپنے معاشروں کو بے قدر نہیں کر رہے؟''

ان کا کہنا تھا کہ جرائم کے خلاف انصاف سے متعلق ماہرین کادنیا بھر کے تجربات کی بنیاد پر یہ کہنا ہے کہ اس معاملے میں مناسب ردعمل کی بنیاد جرائم پر قابو پانے اور ان کی روک تھام پر ہے۔ وہ جرائم کے خلاف فعال اور انسانی حقوق کی بنیاد پر قائم نظام کی تعمیر کا مشورہ دیتے ہیں جس میں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں سے جواب طلبی یقینی ہو اور متاثرین انصاف، ازالے اور وقار تک رسائی پا سکیں۔

انہوں ںے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ سزائے موت دیے جانے کے بارے میں دستیاب سرکاری اعدادوشمار اور اس کی حقیقی افادیت کے بارے میں معلومات جمع کریں، ان کا تجزیہ کریں اور اسے عام کریں۔

مسائل اور کامیابیاں

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ نے کہا کہ ہم دنیا کے بہت سے حصوں میں سزائے موت کو ختم کرنے کے مقصد سے متعلق کامیابیوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

اس موضوع پر انسانی اور عوامی 'حقوق' سے متعلق افریقن کمیشن کے ورکنگ گروپ کے سربراہ ادریسہ سو نے کہا کہ افریقن یونین سزائے موت کو ختم کرنے کے بارے میں معاہدے کے مسودے پر غور کر رہی ہے۔ 26 ممالک سزائے موت کو ختم کر چکے ہیں اور 14 دیگر نے اسے معطل کر رکھا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ ''اس حوالے سے کی جانے والی تمام تر کوششوں کے باوجود براعظم افریقہ میں عدالتی غلطیوں کے واضح خدشات کی موجودگی میں سزائے موت دی جاتی رہی ہے۔ افریقہ میں نصف سے زیادہ ممالک اب بھی سزائے موت پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے انہوں ںے دیگر قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شراکتیں قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو دنیا بھر میں اس سزا کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ملائشیا کی وزیر قانون و ادارہ جاتی اصلاحات اذالینا اوتھمان نے کہا کہ ان کی حکومت لازمی سزائے موت کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اگرچہ سزائے موت بذات خود پوری طرح ختم نہیں کی گئی لیکن لازمی سزائے موت کا خاتمہ درست اور غلط کے مابین ایک توازن ہے۔

2014 میں جب پاکستان نے ایک خوفناک دہشت گرد حملے کے بعد سزائے موت کی معطلی ختم کی تو 2015 میں سزائے موت کے منظر 325 لوگوں کو پھانسی دی گئی۔
© UNICEF/Josh Estey
2014 میں جب پاکستان نے ایک خوفناک دہشت گرد حملے کے بعد سزائے موت کی معطلی ختم کی تو 2015 میں سزائے موت کے منظر 325 لوگوں کو پھانسی دی گئی۔

77 ممالک پیچھے ہیں

آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے والی مئی ساتو نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد کرنے والے 79 ممالک میں سے صرف دو ہی اس حوالے سے بین الاقوامی معیارات کی پاسداری کرتے ہیں جن کے مطابق صرف سنگین ترین جرائم پر ہی یہ سزا دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ باقی 77 ممالک ''انتہائی ضروری'' معیار کو اپنانے میں ناکام رہے ہیں اور 11 ممالک ایسے جرائم پر موت کی سزائیں دے رہے ہیں جنہیں سرے سے جرم ہی نہیں گردانا جانا چاہیے۔ ان میں غیرازدواجی جسمانی تعلقات، نام نہاد مذہبی جرائم اور ہم جنسی پرستی شامل ہیں۔

توازن کا قیام

پاکستان میں غیرسرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ کی سربراہ سارہ بلال کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت قریباً 4,000 افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔ ان لوگوں کو 30 طرح کے جرائم پر یہ سزا سنائی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سزائے موت کے خاتمے یا اس حوالے سے بین الاقوامی معیارات کی تعمیل کی جانب ہر ملک کا سفر اس کے اپنے سماجی ثقافتی تناظر سے جڑا ہوتا ہے۔

2014 میں جب پاکستان نے ایک خوفناک دہشت گرد حملے کے بعد سزائے موت کی معطلی ختم کی تو 2015 میں سزائے موت کے منظر 325 لوگوں کو پھانسی دی گئی۔ تاہم سزائے موت کے خلاف سالہا سال کی وکالت اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی بڑی حد تک پاسداری کی بدولت ''سزائے موت کی سیاسی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے'' اور 2019 کے بعد کسی کوموت کی سزا نہیں دی گئی۔

متنوع نقطہ ہائے نظر

پینل کی سفارشات پیش ہونے کے بعد مقررین نے مختلف طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موضوع پر اتفاق رائے کے فقدان کو واضح کرتے ہوئے بعد مندوبین نے کہا کہ سزائے موت کی ممانعت کا کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں ہے۔ ثقافتی خصائص اور تمام لوگوں کے مذہبی اعتقادات کے احترام کی بات کرتے ہوئے بعض مندوبین نے کہا کہ تمام ممالک کو اس حوالے سے اپنے حالات کے مطابق قانون سازی کا حق حاصل ہے۔

متعدد مقررین نے سزائے موت کے خاتمے کے اقدامات کی حمایت میں بات کی۔ بعض شرکا نے کہا کہ کسی ملک کو مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کو موت کی سزا دے کر لوگوں میں خوف و ہراس نہیں پھیلانا چاہیے۔

درست راستہ

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے رکن ہوزے سانتوز پائس نے کہا کہ ''عالمی سطح پر سزائے موت کے خاتمے کا واضح رحجان پایا جاتا ہے۔'' یہ کمیٹی غیرجانبدار ماہرین پر مشتمل ہے جو رکن ممالک میں شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی میثاق پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔

انہوں ںے کہا کہ ''ہر خطے میں مختلف طرح کے قانونی نظام، روایات، ثقافتوں اور مذہبی پس منظر کے حامل ممالک نے موت کی سزا کا خاتمہ کیا، اسے مستقل معطل رکھا ہے یا 10 سال سے زیادہ عرصہ تک یہ سزائیں معطل کیے رکھی ہیں۔''

ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ ''جب تک ہر ملک موت کی سزا کا خاتمہ نہیں کرتا اس وقت تک انسانی وقار کے تحفظ کا مقصد کبھی پوری طرح حاصل نہیں ہو سکتا۔''

دسمبر میں 125 ممالک کی ریکارڈ تعداد نے جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا جس میں دنیا بھر میں سزائے موت کو معطل کرنے اور پھر اس کا خاتمہ کرنے کے عالمگیر مطالبے کی حمایت کی گئی تھی۔

وولکر تُرک نے کہا کہ یہ ایک اہم واقعہ اور حقیقی پیش رفت کی علامت ہے۔ اگر ہم اس غیرانسانی سزا کو سب کے لیے اور ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی غرض سے اسی رفتار سے کام کرتے رہیں تو انسانی وقار کو دوبارہ اپنے معاشروں کے تانے بانے میں شامل کر سکتے ہیں۔''