انسانی کہانیاں عالمی تناظر

منشیات کے مقدمے میں اُردنی شہری کی سزائے موت ختم کی جائے: انسانی حقوق ماہرین

سعودی دارالحکومت ریاض کا فضائی منظر۔
Unsplash/Stijn te Strake
سعودی دارالحکومت ریاض کا فضائی منظر۔

منشیات کے مقدمے میں اُردنی شہری کی سزائے موت ختم کی جائے: انسانی حقوق ماہرین

انسانی حقوق

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے تیرہ غیرجانبدار ماہرین نے سعودی عرب کے حکام کی جانب سے اردن کے ایک 57 سالہ شہری کی سزائے موت طے کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس شخص کو 2014 میں سعودی عرب کی سرحدی حدود میں ایمفیٹامین گولیاں لے جانے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ منشیات سے متعلق جرائم ''انتہائی سنگین جرم کی ذیل میں نہیں آتے۔''

Tweet URL

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کردہ ماہرین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''بین الاقوامی قانون کی رو سے جن ممالک نے تاحال سزائے موت کو ختم نہیں کیا وہ صرف قتل جیسے 'انتہائی سنگین جرائم' پر ہی اس سزا کا نفاذ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے سعودی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ''منشیات سے متعلق جرائم پر موت کی سزا کو ختم کرے۔''

حسین ابو الخیر کو 2014 میں اردن سے آتے ہوئے سعودی سرحد پر گرفتار کیا گیا تھا۔

2015 میں انہیں منشیات اور ذہنی کیفیت پر اثرانداز ہونے والے مواد پر پابندی سے متعلق 2005 کے سعودی قانون کے تحت منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

طاقت کا استعمال

اگر ابوالخیر کی سزا پر عملدرآمد ہوتا ہے تو وہ نومبر کے آغاز سے اب تک سعودی عرب میں موت کی سزا پانے والے 21ویں شخص ہوں گے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ اطلاعات کے مطابق مقدمے سے پہلے حراست کے دوران انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، قید تنہائی میں رکھا گیا، جبراً غائب کیا گیا اور اس طرح ان سے جرم کا جھوٹا اعتراف کرایا گیا۔

مزید برآں، مبینہ طور پر انہیں گرفتاری کے بعد قانونی مشاورت اور وکالتی معلومات سے بھی محروم رکھا گیا۔

اطلاعات کے مطابق اگرچہ ابوالخیر کی جانب سے 2015 سے تبوک سنٹرل جیل میں اپنی قید کے دوران خود پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات نہیں ہوئیں تاہم بظاہر انہیں بگڑتی ذہنی و جسمانی صحت اور تقریباً نابینا ہو جانے کے باوجود طبی امداد سے محروم رکھا گیا۔ 

ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ''سزائے موت پانے والے افراد سے تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ثبوت اور اعترافات ناصرف تشدد کی ممانعت سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ منصفانہ قانونی کارروائی کے حق کی بھی نفی ہے۔''

امتیازی سلوک

ناجائز قید کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے ابوالخیر کی قید کو ناجائز اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے ابوالخیر کو بتایا گیا کہ انہیں تبوک سنٹرل جیل میں ''موت کی کوٹھڑی'' میں منتقل کر دیا جائے گا۔

10 نومبر سے اب تک سعودی حکام کی جانب سے 12 غیرملکیوں سمیت 20 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ ''ہمیں تشویش ہے کہ منشیات سے متعلق جرائم پر سزائے موت پانے والے لوگوں کی غیرمتناسب تعداد پناہ گزینوں کی ہے۔''

''یہ اقدام غیرملکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔''

ماہرین کے مطابق انہیں تشویش ہے کہ سعودی عرب میں موت کی سزائیں دینے سے پہلے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا ہے اور جب سزا پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو تبھی اس کی تصدیق کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ''سزائے موت کے منتظر افراد کو ان کی سزا پر عملدرآمد کے حوالے سے بروقت آگاہ نہ کرنا ہر طرح کی بدسلوکی کے زمرے میں آتا ہے۔''

زندگی کا حق

ماہرین نے سعودی عرب کی جانب سے 21 ماہ تک سزائے موت کی غیرسرکاری معطلی ختم کیے جانے کے فیصلے پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سزائے موت کو ختم کرنے کے ہر اقدام کو زندگی کے حق کو تسلیم کرنے کی جانب پیش رفت کے طو پر دیکھا جانا چاہیے۔

سزائے موت کی بحالی سے زندگی کے حق کو حاصل تحفظ میں کمی آتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ''ہم احتراماً سعودی حکومت سے اس مطالبے کو دہراتے ہیں کہ وہ سزائے موت کو مکمل طور سے ختم کرنے کے لیے ایسی ہر سزا کو سرکاری طور پر معطل کرنے پر غور کرے اور منشیات سے متعلق جرائم پر سزائے موت کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی مطابقت سے قید کی سزا میں تبدیل کرے۔''

اقوام  متحدہ کے ماہرین کا تعارف

یہ بیان دینے والے ماہرین کے نام جاننے کے لیے یہاں کلِک کیجیے۔

خصوصی اطلاع کار اور غیرجانبدار ماہرین جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کیے جاتے ہیں جنہیں انسانی حقوق سے متعلق کسی مخصوص موضوع یا کسی ملک میں حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے اور رپورٹ دینے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ یہ عہدے اعزازی ہیں اور ماہرین کو ان کے کام کے لیے کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔