ایران: مسلسل پھانسیوں پر ہائی کمشنر انسانی حقوق کو تشویش
ایران میں اس سال پھانسیوں کی خوفناک تعداد نے منگل کے روز اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے لیےہائی کمشنر وولکر ترک کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ ملکی حکام سے سزائے موت کو ختم کرنے یا تمام پھانسیوں کو روکنے کا مطالبہ کریں۔
ایران میں ہر ہفتے 10 سے زیادہ افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے وولکر ترک نے کہا کہ اس رحجان نے ایران کو دنیا کے سب سے زیادہ سزا دینے والے ممالک میں شامل کر دیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر او ایچ سی ایچ آر نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال کے آغاز سے لے کر اب تک کم از کم 209 افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔
بین الاقوامی اصولوں سے عدم مطابقت
ایران میں پھانسی زیادہ تر منشیات سے متعلقہ جرائم میں دی جاتی ہے جو کہ بقول انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں اور معیارات سے مطابقت نہیں رکھتی۔
او ایچ سی ایچ آر کے مطابق ایران میں دی جانے والی سزائے موت کے واقعات میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق صرف گزشتہ 14 دنوں میں کم از کم 45 افراد کو پھانسی دی گئی ہے جن میں سے 22 بلوچ اقلیت سے تھے۔
قابل مذمت عمل
وولکر ترک نے کہا کہ گزشتہ سال ایران میں تقریباً 580 افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا تھا اور اس سال بھی اسی رفتار کے ساتھ پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک قابل مذمت ریکارڈ ہے، خاص طور پر جب سزائے موت کے خاتمے کے لیے بڑھتے ہوئے عالمی اتفاق رائے کو ذہن میں رکھا جائے۔
او ایچ سی ایچ آر کے مطابق اب دنیا میں صرف چند ریاستیں ہی سزائے موت دیتی اور اس پر عمل کرتی ہیں۔
ہفتے کو ایران نے اہوازی عرب اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک سویڈش۔ایرانی شہری حبیب چاب کو پھانسی دی ہے جنہیں ’زمین پر بدعنوانی‘ کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ ایران کے اسلامی قانون کی سخت تشریح کے تحت یہ ایک بڑا جرم ہے۔
ماضی کا حصہ
او ایچ سی ایچ آر کی اطلاعات کے مطابق سوموار کو یوسف مہرداد اور صدر اللہ فاضلی زرے کو توہین مذہب کے الزامات میں قصوروار پائے جانے پر پھانسی دی گئی ہے۔
گزشتہ ماہ انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے وولکر ترک نے سزائے موت کو ماضی کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اکیسویں صدی میں اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔