انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افریقی قیادت کا 2030 تک بچوں میں ایڈز ختم کرنے کا عزم

فیونا یوگنڈا کے ایک ہسپتال میں کام کرتی ہیں جہاں وہ خواتین کو ایڈز سے پاک بچے پیدا کرنے کی تربیت دیتی ہیں۔
© UNICEF/Karin Schermbrucker
فیونا یوگنڈا کے ایک ہسپتال میں کام کرتی ہیں جہاں وہ خواتین کو ایڈز سے پاک بچے پیدا کرنے کی تربیت دیتی ہیں۔

افریقی قیادت کا 2030 تک بچوں میں ایڈز ختم کرنے کا عزم

صحت

اقوام متحدہ کے اداروں نے 12 افریقی ممالک کی جانب سے 2030 تک بچوں میں ایڈز کے خاتمے کے عہد کا خیرمقدم کیا ہے جس کا اعلان بدھ کو تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا۔

بچوں میں ایڈز کے خاتمے کے لیے قائم کردہ عالمی اتحاد کے پہلے وزارتی اجلاس میں ایچ آئی وی کا شکار تمام لڑکیوں اور لڑکیوں کو تحفظِ زندگی میں مددگار علاج تک رسائی دینے اور ایچ آئی وی سے متاثرہ ماؤں کے ہاں اس بیماری سے پاک بچوں کی پیدائش یقینی بنانے کے اقدامات کی جانب پیش رفت کی گئی۔

Tweet URL

وزرا اور نمائندوں نے اس حوالے سے منصوبے پیش کیے جن میں مزید حاملہ خواتین کو ایچ آئی وی/ایڈز کے ٹیسٹ کی سہولت دینا، انہیں طبی نگہداشت مہیا کرنا اور ایچ آئی وی سے متاثرہ نومولود اور نوعمر بچوں کے لیے علاج کی نشاندہی اور اس کی فراہمی بھی شامل ہے۔

امید اور دل شکستگی

بین الاقوامی شراکت داروں نے یہ طے کیا کہ وہ ان مقاصد کے حصول کے لیے ان کی مدد کیسے کریں گے۔

اس بیماری کے خاتمے کے لیے عالمگیر جدوجہد کی قیادت کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ایڈز' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ونی بیانیما نے کہا کہ ''اس اجلاس نے مجھے امید دی ہے۔''

ان کا کہنا تھا کہ ''ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں کے خلاف امتیازی برتاؤ سے میرا دل ٹوٹ جاتا ہے اور آج رہنماؤں نے صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے درکار متعین اقدام کے حوالے سے وعدے کیے ہیں۔''

ہر پانچ منٹ میں موت

اس وقت دنیا بھر میں ہر پانچ منٹ کے بعد ایک بچہ ایڈز سے متعلق وجوہات کی بنا پر انتقال کر جاتا ہے۔

ایچ آئی وی سے متاثرہ نصف بچوں (52 فیصد) کو تحفظ زندگی کے لیے مددگار علاج میسر ہے جبکہ ایسے 76 فیصد بالغ افراد انسداد وائرس کی دوائیں (اینٹی ریٹرو وائرلز) لے رہے ہیں۔ اس صورتحال کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ''ایڈز کے خلاف اقدامات میں ایک واضح ترین تفاوت قرار دیا ہے۔''

اگرچہ ایچ آئی وی سے متاثرہ لوگوں میں بچوں کی تعداد محض چار فیصد ہے تاہم ایڈز سے متعلق تمام طرح کی اموات میں ان کا تناسب 15 فیصد بنتا ہے۔

وعدے اور تعاون

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف)نے رہنماؤں کے وعدوں کا خیرمقدم کیا اور ان کے لیے ادارے کے مکمل تعاون کا عہد کیا۔

یونیسف کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر انوریتا بینز نے کہا ہے کہ ہر بچے کو صحت مند اور پُرامید مستقبل پانے کا حق ہے اور ہم ایچ آئی وی اور ایڈز کے خلاف عالمگیر اقدامات میں بچوں کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے۔''

بچوں میں ایڈز کے خاتمے سے متعلق عالمی اتحاد جولائی 2022 میں کینیڈا کے شہر مونٹریال میں ہونے والی ایڈز کانفرنس میں قائم کیا گیا تھا۔

اس کے پہلے وزارتی اجلاس میں ''بچوں میں ایڈز کے خاتمے کے لیے دارالسلام اعلامیے'' کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔

'آرام کی گنجائش نہیں'

تنزانیہ کے نائب صدر فلپ مپانگو نے اس معاملے پر اجتماعی پیش رفت کرنے کو کہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ہمیں بچوں میں ایڈز کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا ہرممکن کردار ادا کرنا ہو گا۔ عالمگیر اتحاد اس سلسلے میں درست سمت میں ایک قدم ہے اور ہمیں آرام سے نہیں بیٹھنا۔ 2030 نزدیک آ گیا ہے۔''

تنزانیہ ایچ آئی وی کی سب سے زیادہ شرح والے ان 12 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے پہلے مرحلے میں اس اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی۔

دیگر ممالک میں انگولا، کیمرون، آئیوری کوسٹ، جمہوریہ کانگو، کینیا، موزمبیق، نائجیریا، جنوبی افریقہ، یوگنڈا، زیمبیا اور زمبابوے شامل ہیں۔

ابتدائی تشخیص اور علاج

اس اتحاد کا کام چار ستونوں پر استوار ہو گا جن میں نومولود بچوں، نوعمر بچوں اور بالغوں میں مرض کی بروقت تشخیص اور ان کا بہترین علاج اور ایچ آئی وی سے متاثرہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے علاج میں کمی کو دور کرنا بھی شامل ہے تاکہ ان کے بچوں میں اس بیماری کی منتقلی کو روکا جا سکے۔

ممالک حاملہ اور دودھ پلانے والی بالغ لڑکیوں اور خواتین میں ایچ آئی وی کی نئی انفیکشن کی روک تھام پر توجہ دیں گے۔ اس کے علاوہ حقوق اور صنفی مساوات پر کام کیا جائے گا اور ایسی بنیادی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی جو ایچ آئی وی/ایڈز کے علاج کی راہ میں حائل ہیں۔

پیش رفت ممکن ہے!

یو این ایڈز سمجھتا ہے کہ پیش رفت ممکن ہے کیونکہ 16 ممالک اور علاقوں میں ایچ آئی وی اور/ یا آتشک کی ماں سے بچے کو منتقلی میں کمی آنے کی پہلے ہی تصدیق ہو چکی ہے۔

اگرچہ ایچ آئی وی اور دیگر بیماریاں حمل کے دوران یا دودھ پلانے کے عرصہ میں بچوں کو منتقل ہو سکتی ہیں تاہم فوری علاج یا خطرے کی زد پر موجود ماؤں کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات کے ذریعے انہیں روکا جا سکتا ہے۔

گزشتہ برس بوٹسوانا ایچ آئی وی کی بلند شرح کا حامل افریقہ کا ایسا پہلا ملک بن گیا ہے جو اس بیماری کی عمودی منتقلی کے خاتمے کی راہ پر گامزن ہے یعنی اس ملک میں پیدا ہونے والے ہر ایک لاکھ بچوں میں ایچ آئی وی کے نئے متاثرین کی تعداد 500 سے کم ہے۔

اب بوٹسوانا میں بیماری کی عمودی منتقلی کی شرح دو فیصد ہے جو ایک دہائی پہلے 10 فیصد تھی۔