انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ماربرگ وباء نے صحت اور زمین میں تعلق کو اجاگر کیا ہے: ٹیڈروز

استوائی گنی کے علاقے مالابو کی بانی ریسرچ لیبارٹری میں جرثموں پر تحقیق جاری ہے۔
WHO
استوائی گنی کے علاقے مالابو کی بانی ریسرچ لیبارٹری میں جرثموں پر تحقیق جاری ہے۔

ماربرگ وباء نے صحت اور زمین میں تعلق کو اجاگر کیا ہے: ٹیڈروز

صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ نے کہا ہے کہ ادارہ اقوام متحدہ کے زیرقیادت 'ون ہیلتھ' طریقہ کار پر عملدرآمد کے لیے مزید عالمگیر اقدامات کی وکالت کرتے ہوئے استوائی گنی اور تنزانیہ میں ماربرگ وائرس کی وباء پر قابو پانے میں مدد دے رہا ہے۔

جینیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او استوائی گنی میں اس وبا کے خلاف اقدامات میں عملی مدد مہیا کرنے میں مصروف ہے۔

Tweet URL

انہوں ںے کہا کہ ''ہم نے اس بیماری کے مریضوں کی تلاش، انہیں طبی نگہداشت مہیا کرنے، بیماری کے خلاف اقدامات کے انتظام و انصرام میں مدد دینے اور اس معاملے میں مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے ٹیمیں تعینات کی ہیں۔ ہم نے متاثرہ علاقوں میں علاج گاہیں قائم کرنے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔''

ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ سرکاری طور پر تین صوبوں میں نو افراد کے اس بیماری میں مبتلا ہونے اور سات افراد کی موت کی اطلاع دی گئی ہے لیکن ان صوبوں کے درمیان 150 کلومیٹر کا فاصلہ ''وائرس کے وسیع پھیلاؤ'' کی علامت ہے۔

انہوں ںے یہ بھی کہا کہ ڈبلیو ایچ او مزید لوگوں کے اس بیماری میں مبتلا ہونے سے آگاہ ہے اور اس نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ان کے بارے میں ادارے کو رسمی اطلاع مہیا کرے۔

تنزانیہ کے ایک علاقے میں اس بیماری کے آٹھ مریض سامنے آئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت داروں نے وہاں حکومت کو ''بیماری کے خلاف اقدامات میں خامیوں کو دور کرنے'' میں مدد کی پیش کش کی ہے۔

ویکسین کی آزمائش

ماربرگ وائرس کی بیماری ایک شدید مرض ہے اور اس جرثومے کا تعلق ایبولا وائرس کی نسل سے ہے۔ اس بیماری کا شکار ہونے والوں میں اموات کی شرح 88 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

تاحال اس بیماری کے خلاف کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی تاہم ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ ادارے کی کمیٹی نے چار اقسام کی ویکسین کا جائزہ لیا ہے اور ادارہ ''جلد از جلد ان ویکسین اور بیماری کے خلاف دیگر ادویات کی آزمائش شروع کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔''

انہوں ںے اس بات پر بھی زور دیا کہ ڈبلیو ایچ او اس آزمائش کے حوالے سے استوائی گنی اور تنزانیہ کی حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے ''تاکہ اِس وقت اور مستقبل میں بیماری کا پھیلاؤ اور اس سے ہونے والی اموات کو روکنے میں مدد دی جا سکے۔''

ملیریا کے خاتمے کی عالمی کوششوں کی وجہ سے اب کئی ممالک نے اس کے خلاف اپنے طور پر کارروائیاں بھی شروع کی ہوئی ہیں۔
© WHO/Nurbolot Usenbaev
ملیریا کے خاتمے کی عالمی کوششوں کی وجہ سے اب کئی ممالک نے اس کے خلاف اپنے طور پر کارروائیاں بھی شروع کی ہوئی ہیں۔

حیوانی بیماریوں کے خلاف 'ون ہیلتھ' اقدام

ماربرگ وائرس فروٹ بیٹس نامی چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے اور ڈائریکٹر جنرل نے اس وبا کے پھیلاؤ کو انسانوں، جانوروں اور پودوں کی باہم مربوط صحت کے حوالے سے ''ایک اور یاد دہانی'' قرار دیا ہے جو کلی طریقہ کار کا تقاضا کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ون ہیلتھ' طریقہ کار وائرس کی جانوروں سے انسانوں میں منتقلی کی روک تھام میں لازمی اہمیت کا حامل ہو گا کیونکہ ایچ آئی وی، ماربرگ، ایبولا، ایوین انفلوئنزا، ایم پاکس، مرس اور 2003 میں سارس سمیت بہت سی وبائیں اسی طرح شروع ہوئی تھیں۔''

انہوں نے اس ہفتے کے آغاز میں عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او)، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) اور جانوروں کی صحت سے متعلق عالمی ادارے (ڈبلیو او اے ایچ) کے سربراہوں کے ساتھ کیے جانے والے اپنے اس مطالبے کا اعادہ کیا کہ جانوروں اور ماحول کے ساتھ ہمارے تعلق سے جنم لینے والے طبی خطرات سے مناسب طور پر نمٹنے کے لیے درکار پالیسی، حکمت عملی، منصوبوں، شہادتوں، سرمایہ کاری اور افرادی قوت کو مضبوط بنا کر 'ون ہیلتھ' طریقہ ہائے کار کو ترجیح دی جائے۔

ڈائریکٹر جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں وباؤں کی روک تھام، ان سے نمٹنے کی تیاری اور ان کے خلاف اقدامات کے بارے میں اس وقت زیربحث مستقبل کے معاہدے کے ''ابتدائی مسودے'' میں 'ون ہیلتھ' کو ایک اہم اصول کے طور پر شامل دیکھ کر خوشی ہوئی۔