انسانی کہانیاں عالمی تناظر

استوائی بیماریوں سے جُڑی ’غربت اور بدنامی‘ کا خاتمہ ہونا چاہیے: عالمی ادارہِ صحت

گزشتہ دہائی میں استوائی بیماریوں (این ٹی ڈیز)  کے خلاف خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
WHO
گزشتہ دہائی میں استوائی بیماریوں (این ٹی ڈیز) کے خلاف خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

استوائی بیماریوں سے جُڑی ’غربت اور بدنامی‘ کا خاتمہ ہونا چاہیے: عالمی ادارہِ صحت

صحت

ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ڈینگی، جذام اور نظرانداز شدہ دیگر استوائی بیماریوں (این ٹی ڈی) کے خاتمے کے لیے گزشتہ دہائی میں مزید ممالک نے کام کیا ہے، تاہم وبا سے متعلقہ مسائل کے ہوتے ہوئے بہت بڑی کوششیں اور سرمایہ کاری درکار ہے۔

نظرانداز شدہ استوائی بیماریوں سے متعلق عالمی دن پر ڈبلیو ایچ او نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ان 20 طرح کے حالات میں طبی نگہداشت فراہم کرنے کے لیے ہونے والی پیش رفت اور اس راہ میں حائل مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے جو زیادہ تر دنیا کے غریب ترین لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔

Tweet URL

این ڈی ٹی کئی طرح کے جرثوموں بشمول وائرس، بیکٹیریا، طفیلی جانداروں، فنگی اور حیاتیاتی زہر سے پھیلتی ہیں اور جان لیوا ہو سکتی ہیں۔ ان کی دیگر مثالوں میں برولی السر، چاگاز (عضلاتی بیماری)، چکن گونیا (مچھر سے پھیلنے والی بیماری)، ریبیز (کتوں کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری)، کھجلی اور یاز (استوائی خطے کی متعدی بیماری) شامل ہیں۔

بدنامی اور مشکلات

یہ بیماریاں زیادہ تر استوائی خطوں میں پائی جاتی ہیں اور بنیادی طور پر ایسی جگہوں پر پھوٹتی ہیں جہاں آبی تحفظ، نکاسی آب اور صحت کی سہولیات تک رسائی ناکافی ہوتی ہے۔ ان بیماریوں کے ساتھ عموماً زندگی بھر کی بدنامی جڑی ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ معاشی مشکلات کی صورت میں نکلتا ہے اور ان بیماریوں کے تباہ کن طبی، سماجی اور معاشی نتائج ہوتے ہیں۔

اگرچہ 2021 میں قریباً 180 ممالک اور علاقوں نے این ٹی ڈی پھیلنے کے کم از کم ایک واقعے کی اطلاع دی تاہم دنیا بھر میں ایسی 80 فیصد بیماریاں 16 ممالک میں دیکھی گئی ہیں۔ عالمی سطح پر قریباً 1.65 ملین افراد کو ان میں سے کم از کم کسی ایک بیماری کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہےکہ ''دنیا میں بھر میں لاکھوں افراد کو نظرانداز شدہ استوائی بیماریوں سے نجات دلائی جا چکی ہے جو لوگوں کو غربت اور رسوائی کے چکر میں ڈالے رکھتی ہیں۔''

تاہم، انہوں نے کہا ''جیسا کہ اس حوالے سے پیش رفت پر مبنی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے، ہمیں ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔''

پیش رفت میں اضافہ

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 اور 2021 کے درمیانی عرصہ میں این ٹی ڈی سے متعلق علاج معالجے کے ضرورت مند لوگوں کی تعداد میں 80 ملین تک کمی ہوئی۔

مزید برآں، اس عرصہ میں آٹھ ممالک نے اپنے ہاں ان میں سے کم از کم ایک بیماری کا خاتمہ کر دیا۔ گزشتہ برس تک ان ممالک کی تعداد 47 تھی اور مزید ملک اس ہدف کے حصول کی راہ پر گامزن تھے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ کامیابیاں ایک دہائی پر مشتمل نمایاں پیش رفت کا نتیجہ ہیں اور 2010 کے مقابلے میں 2021 میں 25 فیصد کم لوگوں کو ان بیماریوں کے علاج کی ضرورت پیش آئی۔

علاوہ ازیں 2016 اور 2019 کے درمیان ہر سال ایک ارب سے زیادہ لوگوں نے کسی نہ کسی این ٹی ڈی کا علاج کروایا۔

کووڈ۔19 کے اثرات

تاہم کووڈ۔19 وبا نے بھی مقامی بنیادوں پر ہونے والے علاج معالجے۔ طبی سہولیات تک رسائی اور ادویات کی ترسیل کے نظام پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔

نتیجتاً 2019 اور 2020 کے درمیان این ٹی ڈی کا علاج کرانے والوں کی تعداد 34 فیصد کم رہی اور اگر روزمرہ سرگرمیوں کی عمومی بحالی کے نتیجے میں اس سے اگلے برس صحت یاب ہونے والوں کی تعداد میں 11 فیصد اضافہ ہوا تو بھی اندازاً 900 ملین لوگوں کا علاج کیا گیا۔

ڈبلیو ایچ او کی گورننگ باڈی 'ورلڈ ہیلتھ اسمبلی' نے 2020 میں آئندہ دہائی کے لیے این ٹی ڈی کے خاتمے سے متعلق ایک لائحہ عمل کی منظوری دی اور رپورٹ میں اس حوالے سے تاخیر کو دور کرنے اور پیش رفت کی رفتار بڑھانے کے لیے مزید اقدامات اور سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

جوابدہی، مالیات اور شراکتیں

این ٹی ڈی پر قابو پانے سے متعلق خدمات کی فراہمی کے لیے ملکی استحقاق اور جواب دہی کو فروغ دینے کے علاوہ پائیدار اور  مالی وسائل کی قابل بھروسہ فراہمی کا کلیدی کردار ہو گا۔

ڈبلیو ایچ او نے اس حوالے سے کثیرشعبہ جاتی تعاون اور شراکتوں کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ادارے نے تحقیق کی بنیاد پر کام کرنے والی امریکی ادویہ ساز کمپنی 'گیلیئڈ سائنسز' کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت یہ کمپنی ایم بائیسم (AmBisome) کی 304,700 شیشیوں کا عطیہ دے گی۔ یہ انسداد فنگی کی دوا ہے جو ایسے ممالک میں کالا آزار (visceral leishmaniasis) بیماری کے علاج میں استعمال ہوتی ہے جہاں اس کا زور سب سے زیادہ ہے۔ ان میں بنگلہ دیش، ایتھوپیا، انڈیا، کینیا، نیپال، صومالیہ اور جنوبی سوڈان جیسے ملک شامل ہیں۔

یہ نیا تین سالہ تعاون سابقہ معاہدے میں توسیع کے نتیجے میں 2025 تک جاری رہے گا۔ اس پر اندازاً 11.3 ملین ڈالر لاگت آئے گی  اور بہتر تحفظ نیز علاج معالجے اور بیماریوں کی تشخیص تک رسائی بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔

ڈبلیو ایچ او نے مزید شراکت داروں اور عطیہ دہندگان پر زور دیا ہے کہ وہ ان موجودہ خامیوں کو دور کریں جو عالمگیر اور مقامی سطح پر این ٹی ڈی پر قابو پانے کے اقدامات پر مکمل عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔