انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کووڈ۔19 اب بھی دنیا بھر میں صحت کے لیے خطرہ ہے: ٹیڈروز

ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی کووڈ کمیٹی کے اجلاس میں شرکا کو بتایا گیا کہ دنیا بھر میں کووڈ۔19 ویکسین کی 13.1 ارب خوراکیں تقسیم کی جا چکی ہیں۔
© Unsplash/Joshua Fernandez
ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی کووڈ کمیٹی کے اجلاس میں شرکا کو بتایا گیا کہ دنیا بھر میں کووڈ۔19 ویکسین کی 13.1 ارب خوراکیں تقسیم کی جا چکی ہیں۔

کووڈ۔19 اب بھی دنیا بھر میں صحت کے لیے خطرہ ہے: ٹیڈروز

صحت

اقوام متحدہ کےشعبہ صحت کے ادارے کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ کووڈ۔19 عالمگیر صحت کے لیے بدستور خطرہ ہے اور ابھی یہ اعلان کرنے کا وقت نہیں آیا کہ وبا ختم ہو چکی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ فیصلہ گزشتہ جمعے کو جینیوا میں ادارے کے دفتر میں کورونا وائرس سے متعلق ہنگامی کمیٹی کے ویڈیو کانفرنس کی صورت میں ہونے والے تازہ ترین اجلاس میں دی گئی مشاورت کے بعد کیا ہے۔

Tweet URL

کمیٹی نے کہا کہ ''بلاشبہ یہ وائرس مستقبل قریب میں انسانوں اور جانوروں میں ایک مستقل جرثومے کی صورت میں موجود رہے گا۔''  

یہ فیصلہ کووڈ۔19 کو بین الاقوامی تشویش کی حامل ہنگامی طبی صورتحال قرار دیے جانے کو تین سال مکمل ہونے پر سامنے آیا ہے۔ نئے کورونا وائرس (2019-nCoV) کے بارے میں پہلی اطلاع 31 دسمبر 2019 کو چین کے شہر ووہان سے سامنے آئی تھی۔

'کووڈ بدستور ہلاکت خیز ہے'

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ اگرچہ اس بیماری کے حوالے سے دیکھا جائے تو دنیا ایک سال پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ بہتر حالت میں ہے جب اس وائرس کی اومیکرون قسم سے متاثرہ افراد کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا تھا، تاہم گزشتہ آٹھ ہفتوں میں کووڈ۔19 سے متعلق 170,000 سے زیادہ اموات کی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی نگرانی اور اس کی جینیاتی ترتیب کاری میں کمی آئی ہے جس کے باعث اس کی نئی اقسام کا کھوج لگانا اور اس میں آںے والی نئی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنا مزید مشکل ہوگیا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ نظام ہائے صحت کو کووڈ۔19 کے بڑی تعداد میں مریضوں اور انفلوئنزا اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کا علاج کرنے میں بدستور مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ عملے کی کمی ہے اور طبی کارکن تھک چکے ہیں۔

ویکسین کی اہمیت

اقوام متحدہ کے طبی ادارے کے سربراہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس بیماری کو شدت اختیار کرنے سے روکنے میں ویکسین، علاج معالجے اور تشخیص کا بدستور اہم کردار ہے جس سے دنیا بھر میں زندگیوں کو تحفظ دینے اور نظام ہائے صحت اور طبی کارکنوں پر دباؤ ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ کووڈ۔19 کے خلاف اقدامات کو اپنی تسلیم شدہ اہمیت کے باوجود بہت سے ممالک میں بدستور مشکلات کا سامنا ہے جو انتہائی ضرورت مند لوگوں، معمر افراد اور طبی کارکنوں کو ویکسین، تشخیص اور علاج مہیا نہیں کر سکتے۔

ڈبلیو ایچ او کے کورونا وائرس سے متعلق ڈیش بورڈ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سامنے آنے والے کووڈ۔19 کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 752.5 ملین ہے جن میں 6.8 ملین کی اموات ہو چکی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی کووڈ کمیٹی کے اجلاس میں شرکا کو بتایا گیا کہ دنیا بھر میں کووڈ۔19 ویکسین کی 13.1 ارب خوراکیں تقسیم کی جا چکی ہیں جبکہ 89 فیصد طبی کارکن اور 60 سال سے زیادہ عمر کے 81 فیصد معمر افراد ویکسین کی ابتدائی خوراکیں لے چکے ہیں۔

کمیٹی کے ارکان نے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک اور دنیا بھر میں اس بیماری کے انتہائی خطرے کی زد پر موجود لوگوں میں ویکسین لگوانے کی ناکافی شرح اور اس وائرس کی نئی آنے والی اقسام کے بارے میں غیریقینی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔

'وبا کی تھکن'

انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ ''وبا کی تھکن'' اور خطرے میں کمی کا تاثر صحت عامہ اور ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے جیسے سماجی حفاظتی اقدامات میں شدید کمی کا باعث بنا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے کووڈ۔19 کے حوالے سے اپنی سفارشات میں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بدستور چوکس رہیں اور اسے وائرس کی نگرانی اور اس کے جینوم کی ترتیب کاری کے حوالے سے معلومات کی فراہمی جاری رکھیں۔

ڈبلیو ایچ او کے اجلاس میں بتایا گیا کہ صحت عامہ اور سماجی حفاظتی اقدامات کو مناسب طور سے ایسی مخصوص جگہوں پر لاگو کیا جانا چاہیے جہاں ان کی ضرورت ہو اور بیماری کی شدت اور اموات کی تعداد کم سے کم رکھنے کے لیے انتہائی غیرمحفوظ لوگوں کو ویکسین لگائی جانی چاہیے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے کہا ہے کہ کووڈ۔19 کے حوالے سے لوگوں کے خدشات کا جواب دینا اس حوالے سے بہتری کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ روک تھام پر مبنی ایسے اقدامات پر عملدرآمد کیوں اہم ہے جو کورونا وائرس کو دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ہنگامی کمیٹی نے واضح کیا کہ اگرچہ دنیا بھر میں پھیلتی کورونا وائرس کی اومیکرون قسم ایک سے دوسرے فرد کو انتہائی آسانی سے منتقل ہو جاتی ہے تاہم وائرس کی سابقہ تشویش ناک اقسام سے موازنے میں اس بیماری میں مبتلا ہونے کا اب یہ لازمی مطلب نہیں کہ یہ شدت اختیار کر جائے گی۔