انسانی کہانیاں عالمی تناظر

امن اور ’طاقت کی بے رحم کشمکش‘ میں فرق قانون کی حکمرانی ہے: گوتیرش

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش قانون کی حکمرانی کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/Loey Felipe
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش قانون کی حکمرانی کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کر رہے ہیں۔

امن اور ’طاقت کی بے رحم کشمکش‘ میں فرق قانون کی حکمرانی ہے: گوتیرش

امن اور سلامتی

اقوا متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کو ہر طرح کے بین الاقوامی تعاون اور کثیر فریقی طریقہ کار سے مؤثر طور پر کام لینے میں مرکزی اہمیت حاصل ہے اور یہ پوری اقوام متحدہ کی ''بنیاد'' ہے۔

سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ''کسی چھوٹے سے گاؤں سے لے کر عالمی سطح تک امن و استحکام اور اقتدار اور وسائل کے لیے ظالمانہ اقدامات کے مابین قانون کی حکمرانی (آر او ایل) ہی حائل ہوتی ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ یہ غیرمحفوظ لوگوں کو تحفظ دیتی ہے، امتیازی سلوک کی روک تھام کرتی ہے، اداروں پر اعتماد کو بڑھاتی ہے، شمولیتی معیشتوں اور معاشروں کی مدد کرتی ہے اور یہ آمرانہ جرائم کے خلاف پہلی دفاعی لائن ہے۔''

لاقانونیت کا ''سنگین خطرہ''

اقوام متحدہ کے سربراہ نے دنیا بھر میں تباہ کن تنازعات، بڑھتی ہوئی غربت اور بھوک سے متاثرہ لوگوں کی خوفناک صورت کشی کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ ''ہم لاقانونیت کے سنگین خطرے کی زد میں ہیں۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''غیرقانونی طور پر جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنے سے طاقت کے ناجائز استعمال تک، ممالک بے خوفی سے بین الاقوامی قانون کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔

گوتیرش نے یوکرین پر روس کے حملے، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ناجائز ہلاکتوں، افغانستان صنفی بنیاد پر عصبیت، عوامی جمہوریہ کوریا (شمالی کوریا) کے جوہری ہتھیاروں کے غیرقانونی پروگرام، میانمار میں تشدد اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور ہیٹی میں 'اداروں کے شدید بحران' کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ''جیسا کہ ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے، قانون کی حکمرانی سے وابستہ رہنا اب پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ رکن ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر موقع پر اسے قائم رکھں۔

اقوام متحدہ کا کردار

عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے)، انسانی حقوق کونسل اور اس کے متعدد ذمہ داریوں کے حامل انکوائری کمیشن کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ کے ادارے اور طریقہ ہائے کار آر او ایل کو فروغ دیتے اور اس پر عملدرآمد کراتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ''اقوام متحدہ دنیا بھر میں شفاف اور غیرجانبدارانہ عدالتی کارروائیوں کے ذریعے ''غیرقانونی اقدامات کی کھلی چھوٹ کے خلاف متحرک کردار ادا کر رہا ہے اور ناجائز اقدامات کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہے۔

ہم متاثرین کی مدد اور انہیں انصاف، ازالے اور تلافی تک رسائی مہیا کر کے بھی قانون کی حکمرانی کو مضبوط بناتے ہیں۔''

انہوں نے آئی سی جے کو ''انتہائی سنگین جرائم کے ذمہ داروں کے احتساب کی خواہش کی تکمیل'' قرار دیتے ہوئے عدالت کے ''لازمی دائرہ کار'' کو قبول کرنے کی اہمیت کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اس معاملے میں کونسل پر ''ایک خصوصی ذمہ داری'' عائد ہوتی ہے۔

کم عمر لڑکیوں کی شادی افغانستان میں معاشی بقاء کا ایک ذریعہ ہے۔
© UNICEF/Madhok
کم عمر لڑکیوں کی شادی افغانستان میں معاشی بقاء کا ایک ذریعہ ہے۔

رکن ممالک کی ذمہ داری

سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ کیسے رکن ممالک اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کے اعلامیے اور بین الاقوامی قانون کو قائم رکھ کر، تنازعات کو پرامن طور سے طے کر کے، تمام لوگوں کے مساوی حقوق کے لیے کام کرتے ہوئے اور لوگوں کے حق خود ارادیت اور ''خود مختارانہ مساوات'' سے وابستہ رہ آر او ایل کو فروغ دیتے ہوئے اس ادارے کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

انہوں ںے واضح کیا کہ ''اگرچہ بہت سے مسائل موجود ہیں تاہم عالمگیر امن اور سلامتی برقرار رکھنے اور قیام امن کی کوششوں کے لیے قانون کی حکمرانی کی کا تفوق لازمی ہے۔''

اقوام متحدہ کے سربراہ کے مطابق بات چیت، انکوائری، مصالحت، مفاہمت اور ثالثی قانونی ڈھانچے کو قائم رکھنے کے اہم ذرائع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قومی سطح پر اس سے لوگوں اور اداروں کے مابین اعتماد قائم ہوتا ہے، بدعنوانی میں کمی آتی ہے اور معاشرے اور معیشتیں ہموار انداز میں آگے بڑھتے ہیں۔

اس سے برعکس، قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں ''ناجائز اقدامات کی کھلی چھوٹ کو فروغ ملتا ہے، منظم جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے اور پرتشدد تنازعے کا شدید خطرہ رہتا ہے۔''

انہوں نے کہا کہ قانونی ڈھانچے نے 2030 کے ایجنڈے اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کی کوششوں کو مضطوط کیا ہے اور ''غربت، ناانصافی اور اخراج پر موثر، غیرامتیازی اور شمولیتی سرکاری پالیسیوں کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔''

اقوام متحدہ اس معاملے میں دنیا بھر کے ممالک کو ان کے ہاں موجود اپنی ٹیموں کے ذریعے مدد دینے کے لیے تیار ہے۔

مستقبل کا لائحہ عمل

عالمگیر تعاون اور کثیرفریقی طریقہ کار کو مضبوط بنانے کے خاکے کی حیثیت رکھنے والی 'ہمارے مشترکہ ایجنڈے' کی رپورٹ میں ایسے قوانین کے لیے عام قبولیت ممکن بنانے کی بات کی گئی ہے جو انہیں اقوام متحدہ میں ہر جگہ نئے سرے سے ترتیب دینے اور انہیں مضبوط بنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

اس میں قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور ترقی کے درمیان روابط کا تذکرہ کرتے ہوئے لوگوں پر مرتکز طریقہ کار اختیار کرنے کے لیے کہا گیا ہے جس میں تمام لوگوں کو قوانین اور انصاف تک رسائی ہو۔

اس کی عکاسی امن کے لیے نئے ایجنڈے میں بھی ہو گی۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ''جوہری ہتھیاروں کے خاتمے سے لے کر موسمیاتی بحران، حیاتیاتی تنوع زائل ہونے، وباؤں اور خطرناک بیماریوں کے ظہور تک موجودہ اور مستقبل کے مسائل پر قابو پانے کے لیے قانون کی حکمرانی لازمی اہمیت رکھتی ہے۔ اسے بدلتے ماحول اور ٹیکنالوجی کےشعبے میں ہونے والی ترقی کے مطابق بنایا جانا چاہیے۔''

فلسطینی علاقے رملہ میں مسمار کیا گیا ایک گھر۔
UNOCHA
فلسطینی علاقے رملہ میں مسمار کیا گیا ایک گھر۔

اقوام متحدہ کا منفرد کردار

آخر میں انہوں ںے کہا کہ اقوام متحدہ کی ''قانونی حیثیت، قائل کرنے کی طاقت اور اصولی اثر'' اسے قوانین کے مطابق اختراع اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے ایک منفرد کردار مہیا کرتے ہیں۔

آر او ایل کو وسعت دینے میں سلامتی کونسل کا بھی ''اہم کردار'' ہے۔ آئیے ''باہم مل کر قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کا عہد کریں تاکہ تمام انسانوں کے لیے مزید مستحکم اور محفوظ دنیا تخلیق کی جا سکے۔''