انسانی کہانیاں عالمی تناظر

معذور افراد کے لیے منصفانہ دنیا کے قیام میں اختراع اہم: سربراہ اقوام متحدہ

بنگلہ دیش کا ایک معذور نوجوان بیڈمنٹن کھیلتے ہوئے۔
© UNICEF/Jannatul Mawa
بنگلہ دیش کا ایک معذور نوجوان بیڈمنٹن کھیلتے ہوئے۔

معذور افراد کے لیے منصفانہ دنیا کے قیام میں اختراع اہم: سربراہ اقوام متحدہ

انسانی حقوق

معذور افراد کے عالمی دن پر سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا کو درپیش بہت سے بحران جسمانی معذوری کے حامل لوگوں کو غیرمتناسب طور سے متاثر کر رہے ہیں جنہیں تحفظ دینے کے لیے انقلابی اور اختراعی طریقوں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

اپنے پیغام میں گوتیرش کا کہنا ہے کہ کئی طرح کی ایسی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے سرکاری و نجی شعبے کے درمیان بھرپور تعاون کی ضرورت ہے جس سے معذور افراد کو فائدہ پہنچے اور خود انہیں بھی ان کی ترقی کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے اقوام متحدہ کو معذور افراد کے لیے مزید قابل رسائی بنانے کے لیے ادارے میں داخلی طور پر کی جانے والی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے 'فیصلہ سازی میں معذور افراد کی شمولیت سے متعلق اقوام متحدہ کی حکمت عملی' کو اس مقصد کے حصول کا منصوبہ قرار دیا۔

انہوں ںے کہا کہ ''اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر سے لے کر دنیا بھر میں اس کے اقدامات تک ہم ڈیجیٹل رسائی کا جائزہ لینے، اس پر توجہ دینے اور اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور معذور افراد کی شمولیت کے معاملے پر اپنی مثال کے ذریعے رہنما کردار ادا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اختراع اور ٹیکنالوجی معذور افراد کے لیے شمولیت، اطلاعات تک رسائی بڑھانے، تعلیم اور دیرپا علمیت کے لیے موثر ذرائع کا کردار ادا کر سکتی ہیں جن کی بدولت ان کے لیے افرادی قوت اور بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو معاشرے میں مساوی بنیادوں پر شرکت کے نئے مواقع کھلتے ہیں۔

'رکاوٹوں کا خاتمہ'

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا کی 15 فیصد آبادی یا ہر سات میں سے ایک فرد کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار ہے۔ یہ امر یقینی بنانے میں معذور اور معذوری کے حوالے سے سمجھ بوجھ کا اہم کردار ہےکہ ایک ارب سے زیادہ یہ لوگ بھرپور زندگی گزاریں جس میں وہ ایک ایسے معاشرے کا مکمل حصہ ہوں جس میں ان کے حقوق کا احترام کیا جائے اور ان کے کردار سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک نئی دستاویزی فلم میں معذور افراد کے سماجی انضمام کے بارے میں اس تصور کو جنوبی کوریا کے معذور فنکاروں کی نظر سے دکھایا گیا ہے۔ اس فلم سے موجودہ متنوع دنیا میں شمولیت کے حقیقی مفہوم کے بارے میں ایک نیا نقطہ نظر سامنے آتا ہے۔

''بریکنگ بیریئرز ون برُش سٹروک ایٹ اے ٹائم' کے عنوان سے بنائی جانے والی یہ فلم ناظرین کو ان فنکاروں کے گھروں اور زندگیوں میں لے جاتی ہے جو اپنی بنائی تصاویر کے ذریعے بات کرتے ہیں اور اس عمل میں سامعین کو آنکھوں سے سننا سکھاتے ہیں۔

سماجی ترقی کے بارے میں ایک مشق سے کہیں بڑھ کر آٹزم کا شکار ان فنکاروں کا یہ کام حقیقی فنکارانہ اہمیت کا حامل ہے اور اسے سیئول آرٹس سنٹر میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے جو کہ ملک میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور انتہائی ممتاز مقام ہے۔

ہین سول کِم اور ہے شِن پارک نامی دو فنکاروں کے خاندانوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی زندگیوں اور محبت کی قریبی جھلک دکھاتے ہوئے یہ دستاویزی فلم جدوجہد کی ایک خاص داستان سناتی ہے جس میں چند عالمگیر موضوعات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ ان میں ''ایک ایسی دنیا تک اپنی آواز پہنچانا جو سنتی نہیں، شور شرابے میں سچائی کا بلند آہنگ اظہار اور اس بات کو قبول کر کے زندگی میں آگے بڑھنا کہ ہم کون ہیں اور ہمیں معاشرے میں کیا کردار ادا کرنا ہے'' خاص طور پر اہم ہیں۔

معتدل رفتار اور تخلیاتی حساسیت کے ساتھ یہ دستاویزی فلم ہمیں دکھاتی ہے کہ تحریک کہیں سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے، معذوری محض تناظر کا معاملہ ہے اور ہم سب کی انسانیت مشترک ہے جسے فن کے ذریعے پایا اور سمجھا جا سکتا ہے۔