انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تباہ کن عالمی تپش کو روکنے کے لیے ممالک کے وعدے ناکافی ہیں: یو این رپورٹ

بنگلہ دیش کے نوجوان موسمیاتی بحران کے خلاف عالمگیر احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے۔
© UNICEF/Jannatul Mawa
بنگلہ دیش کے نوجوان موسمیاتی بحران کے خلاف عالمگیر احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے۔

تباہ کن عالمی تپش کو روکنے کے لیے ممالک کے وعدے ناکافی ہیں: یو این رپورٹ

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ادارے (یو این ایف سی سی سی) کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پیرس معاہدے کے بیشتر فریقین کی جانب سے جمع کرائے گئے منصوبوں سے دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد ملے گی لیکن یہ منصوبے اس صدی کے آخر تک عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک رکھنے کے لیے خاطرخواہ حد تک پرعزم نہیں ہیں۔

حالیہ مشترکہ متعین قومی شراکتیں (این ڈی سی) یعنی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو پانے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محدود رکھنے کے لیے ممالک کی قومی سطح پر کوششیں ہماری زمین کو کم از کم 2.5 ڈگری حدت تک ہی لے جا رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) میں شامل سائنس دان اس درجے کو تباہ کن سمجھتے ہیں۔

عالمی حدت میں کمی کے بجائے اضافہ

2019 میں آئی پی سی سی نے نشاندہی کی تھی کہ عالمی حدت میں کمی لانے کے لیے 2030 تک کاربن کے اخراج کو 2010 کی سطح کے مقابلے میں 43 فیصد تک کم کرنا ہو گا لیکن حالیہ موسمیاتی منصوبوں سے ظاہر ہوتا ہےکہ اس میں الٹا 10.6 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔

تاہم یہ گزشتہ برس کی رپورٹ کے مقابلے میں قدرے بہتر صورتحال ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ 2030 تک کاربن کے اخراج میں 13.7 فیصد اضافہ متوقع ہے اور 2030 کے بعد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ جاری رہے گا۔

اقوام متحدہ میں موسمیاتی تبدیلی کے شعبے کے ایگزیکٹو سیکرٹری سائمن سٹیئل کہتے ہیں کہ ''2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہےکہ ممالک نے اس سال کچھ پیش رفت ضرور کی ہے۔''

تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ''سائنس اور پیرس معاہدے کے تحت ہمارے موسمیاتی اہداف واضح ہیں۔ 1.5 ڈگری سیلسیئس کے ہدف کی جانب درست راہ پر گامزن رہنے کے لیے جس پیمانے اور رفتار پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی درکار ہے ہم ابھی اس سے بہت دور ہیں۔''

سٹیئل نے واضح کیا کہ حکومتوں کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنے منصوبوں کو فوری طور پر بہتر بنانے اور آئندہ آٹھ سال میں ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

معدنی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
© Unsplash/Ella Ivanescu
معدنی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

امید کی کرنیں

گزشتہ برس سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس سی او پی 26 کے دوران تمام ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنے مںصوبوں پر نظرثانی کرنے اور انہیں بہتر بنانے پر اتفاق کیا تھا لیکن 193 میں سے صرف 24 ممالک نے ہی اقوام متحدہ کو اپنے نئے منصوبے جمع کرائے ہیں۔

اقوام متحدہ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق شعبے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ''یہ مایوس کن صورتحال ہے۔ حکومتوں کے فیصلوں اور عملی اقدامات سے ان خطرات سے نمٹنے کی ہنگامی ضرورت اور ان کی شدت کا اظہار ہونا چاہیے جو آج ہمیں درپیش ہیں اور ان اقدامات سے واضح ہونا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے ہمارے پاس بہت کم وقت باقی ہے۔''

ادارے کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو نئے منصوبے جمع کرانے والے بیشتر ممالک نے اپنے وعدوں پر عملدرآمد کی صورتحال کو بہتر کیا ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے خاطرخواہ عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ ادارے نے اس حقیقت کو ''امید کی کرنیں'' قرار دیا ہے۔

کاربن کا اخراج نیٹ زیرو سطح پر لانے سے متعلق طویل مدتی حکمت عملی کے بارے میں بدھ کو شائع ہونے والے اقوام متحدہ کے دوسرے جائزے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے مزید مثبت رحجانات سامنے آئے ہیں۔

دنیا کے 93 فیصد جی ڈی پی، عالمی آبادی کے 47 فیصد اور دنیا بھر کی 69 فیصد توانائی استعمال کرنے والے 62 ممالک ان منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔

ادارے نے کہا ہے کہ ''یہ اس بات کی ایک اہم علامت ہے کہ دنیا کاربن کا اخراج نیٹ زیرو سطح پرلانے کے مقصد کی جانب اپنا سفر شروع کر چکی ہے۔''  

اس کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ نیٹ زیرو سے متعلق بیشتر اہداف بدستور غیریقینی ہیں اور ان کا حصول مستقبل میں اس حوالے سے درکار ضروری اقدامات کا مرہون منت ہے۔

تووالو کے سیاستدان سائمن کوف COP26 سے ایک پہلے ریکارڈ کی گئی ویڈیو کی مدد سے مخاطب ہیں۔
Ministry of Justice, Communication and Foreign Affairs, Tuvalu Government
تووالو کے سیاستدان سائمن کوف COP26 سے ایک پہلے ریکارڈ کی گئی ویڈیو کی مدد سے مخاطب ہیں۔

عالمی رہنماؤں سے مطالبہ

مصر کے شہر شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنس سی او پی 27 کے انعقاد میں دو ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے اور سٹیئل نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اپنے منصوبوں پر نظرثانی کریں اور انہیں بہتر بنائیں تاکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی موجودہ صورتحال اور اس حوالے سے سائنس دانوں کے متعین کردہ اہداف کے مابین فرق دور ہو سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ ''سی او پی 27 ایسا موقع ہے جب عالمی رہنما موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی رفتار کو دوبارہ تیز کرسکتے ہیں، بات چیت سے عملدرآمد کی جانب ضروری کردار ادا کر سکتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ایسی تبدیلی کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں جو موسمیاتی ہنگامی صورتحال پر قابو پانے کے لیے معاشرے کے ہر حصے میں لائی جانی چاہیے۔

سٹیئل نے دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اس کانفرنس میں ثابت کریں کہ وہ قانون سازی، پالیسیوں اور پروگراموں کے ذریعے پیرس معاہدے پر کیسے عملدرآمد کریں گے اور اس مقصد کے لیے تعاون کیسے مہیا کریں گے۔

انہوں نے ممالک سے خاص طور پر یہ بھی کہا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے چار ترجیحی شعبوں میں پیش رفت کریں جن میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنا، خود کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھالنا، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصان پر قابو پانا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کا اہتمام کرنا شامل ہیں۔