وینزویلا کے مہاجرین کی لاطینی امریکہ اور غرب الہند میں بقاء کی جدوجہد
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مہنگائی، کووڈ۔19 وباء کے اثرات اور بیروزگاری کی بلند شرح نے لاطینی امریکہ اور غرب الہند میں وینزویلا سے تعلق رکھنے والے بہت سے پناہ گزینوں اور مہاجرین کے لیے اپنی زندگیوں کی نئی شروعات کرنا اور معاشرے کا حصہ بننا مشکل بنا دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کے ادارے 'یو این ایچ سی آر' اور مہاجرت کے امور سے متعلق اس کے ادارے 'آئی او ایم' کی جانب سے 'پناہ گزینوں اور مہاجرین کی ضروریات کے تجزیے' (آر ایم این اے) کے مطابق وینزویلا سے تعلق رکھنے والے تقریباً 4.3 ملین لوگوں کو خوراک، گھر اور مستحکم نوکریوں تک رسائی میں مسائل کا سامنا ہے۔
یہ دونوں ادارے وینزویلا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں اور مہاجرین کے لیے علاقائی بین الاداری رابطہ پلیٹ فارم (آر4وی) کی مشترکہ قیادت کرتے ہیں اور یہ رپورٹ 190 سے زیادہ شراکت داروں کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔
🔴 Three-quarters of refugees and migrants from Venezuela 🇻🇪 in Latin America and the Caribbean continue to face difficulties in accessing basic services.
Read the joint statement from IOM and UNHCR ⬇️
https://t.co/wHcVo6yrtj
UNmigration
میزبان معاشروں کا حصہ بننے کی خواہش
وینزویلا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں اور مہاجرین کے لیے 'یو این ایچ سی آر' اور 'آئی او ایم' کے مشترکہ خصوصی نمائندے ایڈورڈو سٹین نے کہا ہے کہ ''وینزویلا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین اور مہاجرین اُن لوگوں کو اپنی صلاحیتوں اور علم سے مستفید کرنے اور ان کی زندگی اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں ںے ان کا فیاضانہ طور سے خیرمقدم کیا ہے۔''
تاہم، اگر انہیں اپنے میزبان معاشروں کا موثر طور سے حصہ بننے کا موقع نہیں ملتا تو وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔''
تازہ ترین معلومات کے مطابق وینزویلا سے تعلق رکھنے والے 7.1 ملین سے زیادہ پناہ گزین اور مہاجرین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں 80 فیصد سے زیادہ لوگ لاطینی امریکہ اور غرب الہند کے 17 ممالک میں مقیم ہیں۔
بھوک اور بقاء کے لیے ’جسم فروشی‘
خطے میں ان لوگوں کی موجودگی کو باضابطہ بنانے اور ان کے بارے میں ضروری تفصیلات جمع کرنے کے متعدد اقدامات کے ذریعے ہونے والی پیش رفت کے باوجود یہ رپورٹ انہیں مزید تحفظ، خدمات تک رسائی اور نوکری کے مواقع کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔
وینزویلا سے تعلق رکھنے والے نصف پناہ گزین اور مہاجرین کو روزانہ تین وقت کھانا میسر نہیں ہے اور ان کے لیے محفوظ اور باعزت رہائش تک رسائی کا فقدان ہے۔ ان میں بہت سے لوگ محض کھانا کھانے یا سڑکوں پر قیام سے بچنے کے لیے ''جسم فروشی''، بھیک مانگنے یا قرض پر انحصار کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انتہائی کم اجرتوں کے باعث بھی ان کے لیے اپنا اور اپنے اہلخانہ کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایکواڈور میں مقیم وینزویلا کے 86 فیصد پناہ گزینوں اور مہاجرین کے پاس اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے خاطرخواہ آمدنی کا انتظام نہیں ہے جبکہ چلی میں ان کے 13 فیصد ہم وطن خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
تعلیمی مشکلات
اگرچہ اب سکول کھل گئے ہیں لیکن وینزویلا سے تعلق رکھنے والے بہت سے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے بچوں کو تعلیم تک رسائی میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں ان کے داخلے کی گنجائش نہیں ہے۔
کولمبیا میں چھ سے 17 برس عمر کے تقریباً 30 فیصد مہاجرین اس لیے سکول نہیں جا رہے کیونکہ ان کے والدین ان کی فیس اور پڑھائی کے دیگر اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ غرب الہند کے جزائر اروبا اور کوراکاؤ میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں والدین کو لازمی انشورنس، نقل و حمل اور پڑھائی پر اٹھنے والے اخراجات برداشت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اس جائزے میں مزید بتایا گیا ہے کہ وینزویلا سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں کے پاس مہاجرت کی دستاویزات، روزگار اور مقامی معاشرے کا حصہ بننے کے امکانات نہیں ہیں وہ اچھے مستقبل کی تلاش میں دوسری جگہوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ اس مقصد کے لیے انتہائی بے قاعدہ راستوں کا انتخاب کر کے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
بین الاقوامی مدد کی ضرورت
سٹین کا کہنا ہے کہ ''اس وقت جبکہ دنیا کو بہت سے انسانی بحرانوں کا سامنا ہے تو ہمیں وینزویلا کے لوگ اور ان کے میزبان معاشروں کو بھولنا نہیں چاہیے۔''
پناہ گزینوں اور مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے والی حکومتوں کو سراہتے ہوئے انہوں نے ان لوگوں کے لیے مزید بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ''پناہ گزینوں اور مہاجرین کے میزبان ممالک نے اپنے ہاں ان لوگوں کی موجودگی کو باقاعدہ بنانے کے اقدامات اور انہیں صحت، تعلیم اور دیگر سماجی خدمات تک رسائی میں سہولت دینے کے ذریعے اس بحران پر قابو پانے کے لیے مسلسل قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔''
تاہم، ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو پناہ گزین اور مہاجرین کے طور پر باضابطہ حیثیت دینا ان کے اپنے میزبان معاشروں کا حصہ بننے کی جانب محض پہلا قدم ہے اور اس کے بعد ایسی پالیسیاں لائی جانی چاہئیں جن کے ذریعے پناہ گزین اور مہاجرین اپنی ذمہ داری خود اٹھا سکیں۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی مدد کی فوری ضرورت ہے۔''