انسانی کہانیاں عالمی تناظر

قدرتی آفات کے خطرے میں تخفیف: دنیا کی صرف نصف آبادی کے پاس بروقت انتباہی نظام موجود ہے

بالی کے ایک سکول میں بچے سونامی سے بچنے کی تربیت حاصل کرتے ہوئے۔
UNDRR/Antoine Tardy
بالی کے ایک سکول میں بچے سونامی سے بچنے کی تربیت حاصل کرتے ہوئے۔

قدرتی آفات کے خطرے میں تخفیف: دنیا کی صرف نصف آبادی کے پاس بروقت انتباہی نظام موجود ہے

موسم اور ماحول

آفات کے خطرے میں تخفیف سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر (یو این ڈی آر آر) اور عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی جمعرات کو شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا کے نصف ممالک کو کئی طرح کے قدرتی خطرات کے بارے میں بروقت انتباہ کرنے والے نظام کے ذریعے تحفظ حاصل نہیں ہے۔

آفات کے خطرے میں تخفیف کے بارے میں عالمی دن کی موافقت سے جاری کردہ اس رپورٹ میں بتائے گئے اعدادوشمار ان ممالک کے لیے اور بھی بدترین ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ کمترین ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) میں نصف سے بھی کم اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک (ایس آئی ڈی) میں صرف ایک تہائی کے پاس ہی کئی طرح کے قدرتی خطرات کے بارے میں بروقت انتباہ کے نظام موجود ہیں۔

دنیا بھر میں کئی طرح کے قدرتی خطرات کے بارے میں بروقت انتباہی نظام کی صورتحال کے موضوع پر شائع ہونے والی یہ رپورٹ تازہ ترین معلومات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بروقت انتباہ کی محدود صلاحیت کے حامل ممالک میں قدرتی آفات کے دوران اموات کی شرح ایسے ممالک کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے جن کے پاس قدرتی آفات کے بارے میں بروقت آگاہی کے جامع انتظامات موجود ہیں۔

Tweet URL

سرمایہ کاری میں مہلک ناکامی

اس دن پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ''دنیا ایسے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کے تحفظ کے لیے سرمایہ کاری کرنے میں ناکام ہو رہی ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہیں۔ موسمیاتی بحران پیدا کرنے میں جن ممالک کا سب سےکم کردار ہے وہی اس بحران کی سب سے بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔''

رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایل ڈی سی، ایس آئی ڈی اور افریقہ کے ممالک کو آفات کے بارے میں بروقت آگاہی کی سہولت میں اضافے اور خود کو ان آفات کے خلاف مناسب تحفظ دینے کے لیے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

قدرتی آفات کے خطرات میں تخفیف سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ اور 'یو این ڈی آر آر' کی سربراہ مامی میزوتوری کا کہنا ہے کہ ''جب یہ رپورٹ تیار کی جا رہی تھی تو پاکستان اپنی تاریخ کی بدترین موسمیاتی تباہی سے نبرآزما تھا جس میں تقریباً 1700 جانیں ضائع ہوئیں۔''

میزوتوری کے مطابق ''اس تباہی کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہاں قدرتی آفات کے بارے میں بروقت انتباہ کے نظام نہ ہوتے تو اموات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی۔''

'نمایاں' فرق

ان کا مزید کہنا تھا کہ ''تشویشناک طور پر یہ رپورٹ قدرتی آفات کے خلاف تحفظ کے معاملے میں ممالک کے مابین نمایاں فرق کو واضح کرتی ہے کہ دنیا بھر میں صرف نصف ممالک کے پاس ہی کئی طرح کے قدرتی خطرات کے بارے میں بروقت انتباہ کرنے کے نظام موجود ہیں۔ یہ صورتحال فوری تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے تاکہ زندگیوں، روزگار اور اثاثوں کو تحفظ دیا جا سکے۔''

ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پیٹیری ٹالس نے کہا ہے کہ بہت سی معلوم قدرتی آفات میں پانچ گنا اضافہ ہو گیا ہے جن کا ایک بڑا سبب انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلی اور پہلے سے زیادہ شدید ہوتے موسم ہیں۔ متوقع طور پر مستقبل میں بھی یہ رحجان برقرار رہے گا۔ بروقت انتباہ کے نظام موسمیاتی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے کا ایک ثابت شدہ اور موثر طریقہ ہے جس سے زندگیوں اور سرمائے کو تحفظ ملتا ہے۔''

ٹالس کا کہنا تھا کہ ''ہم اس سے کہیں زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ قدرتی آفات کے بارے میں بروقت انتباہ انتہائی کمزور اور غیرمحفوظ لوگوں تک پہنچے تاکہ وہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے بروقت حفاظتی اقدامات کر سکیں۔ اسی لیے ڈبلیو ایم او آئندہ پانچ برس میں تمام لوگوں کے لیے بروقت انتباہ سے متعلق اقوام متحدہ کے زیراہتمام ایک اقدام شروع کر رہا ہے۔

کم ترقی یافتہ ممالک میں نصف سے بھی کم اور جزیروں پر مشتمل ترقی پذیرچھوٹی ریاستوں میں صرف ایک تہائی کے پاس قدرتی آفات کا انتباہی نظام موجود ہے۔
UNDRR/Chris Huby
کم ترقی یافتہ ممالک میں نصف سے بھی کم اور جزیروں پر مشتمل ترقی پذیرچھوٹی ریاستوں میں صرف ایک تہائی کے پاس قدرتی آفات کا انتباہی نظام موجود ہے۔

انسانیت 'خطرے کی زد میں' ہے: گوتیرش

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس عالمی دن پر اپنے پیغام میں خبردار کیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے مسلسل بڑھتے اخراج سے ''پورے کرہ ارض پر شدید موسمی حالات میں مزید شدت آ رہی ہے اور موسمیاتی تباہی سے ممالک اور معیشتوں کو جس قدر نقصان ہو رہا ہے ''اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔''

انہوں نے وضاحت کی کہ بڑھتی ہوئی قدرتی آفات انسانی جانیں لے رہی ہیں اور ان سے سینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنی یہ بات دہرائی کیسے انہوں نے پاکستان کے اپنے دورے میں وہاں حالیہ سیلاب سے آنے والی تباہی کا براہ راست مشاہدہ کیا۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ''جنگوں کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کے مقابلے میں موسمیاتی تبدیلی سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے اور اس حوالے سے دنیا کے نصف لوگ پہلے ہی خطرے کی زد میں ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ ''دنیا ایسے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کو تحفظ دینے کے لیے سرمایہ کاری میں ناکام ہو رہی ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہیں۔''

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو ممالک موسمیاتی بحران پیدا کرنے کے سب سے کم ذمہ دار ہیں وہی اس کی سب سے بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔

بروقت انتباہ سے زندگیوں کو تحفظ ملتا ہے

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ''کسی جگہ بروقت انتباہ کے ذرائع کی عدم موجودگی میں وہاں کی پوری آبادیاں اپنی جانب بڑھتی قدرتی آفات سے بے خبر ہوتی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ''لوگوں کے پاس شدید موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے انتباہ کی مناسب سہولت ہونی چاہیے۔''

اسی لیے انہوں نے آئندہ پانچ برس میں قدرتی آفات کے بارے میں بروقت آگاہ کرنے والے عالمگیر نظام کی موجودگی ممکن بنانے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ''ثابت ہو چکا ہے کہ بروقت انتباہ کے نظام اور انتباہ کے بعد تحفظ سے متعلق عملی اقدامات کی صلاحیت کی موجودگی میں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔''

سی او پی 27 کا امتحان

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ آئندہ ماہ مصر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس (سی او پی 27) میں وہ ایک عملی مںصوبہ شروع کریں گے تاکہ پانچ سال میں انتباہی نظام کے حصول کو حقیقت کا روپ دیا جا سکے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس سلسلے میں تمام ''حکومتیں، بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور سول سوسائٹی'' فوری تعاون کریں۔

انہوں نے کہا کہ سی او پی میں موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے وعدوں کی تکمیل ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین اعتماد کی بحالی کا ''ایک اہم امتحان'' ہو گا۔

اقوام متحدہ کے سربراہ کا آخر میں کہنا تھا کہ ''قدرتی آفات کے خطرے میں تخفیف کے بارے میں اس عالمی دن پر میں تمام ممالک پر زور دیتا ہوں کہ وہ بروقت انتباہ کے نظام پر سرمایہ کاری کریں اور ایسے ممالک کی مدد کریں جن کے پاس اس صلاحیت کا فقدان ہے۔''