انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اقوام متحدہ افریقن یونین کی شراکت 'کثیرالجہتی تعاون' کی بنیاد ہے: گوتیرش

گوتیرش نے اجلاس کو بتایا کہ گزشتہ 20 برس میں اقوام متحدہ اور افریقن یونین نے باہم منفرد شراکت قائم کی ہے جس کی بنیاد باہمی ترقی، احترام اور افریقہ کے استحقاق پر ہے۔
UN Photo/Eskinder Debebe
گوتیرش نے اجلاس کو بتایا کہ گزشتہ 20 برس میں اقوام متحدہ اور افریقن یونین نے باہم منفرد شراکت قائم کی ہے جس کی بنیاد باہمی ترقی، احترام اور افریقہ کے استحقاق پر ہے۔

اقوام متحدہ افریقن یونین کی شراکت 'کثیرالجہتی تعاون' کی بنیاد ہے: گوتیرش

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اور افریقن یونین (اے یو) کے مابین تعاون پہلے سے زیادہ مضبوط ہے تاہم اس حوالے سے کئی بڑے مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔

منگل کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے انہوں ںے کونسل میں، براعظم افریقہ اور دیگر ممالک میں تمام رہنماؤں سے کہا کہ وہ افریقن یونین کے ساتھ تعاون کی ہرممکن کوشش کریں تاکہ اسے اپنے اہداف کے حصول میں مدد مل سکے۔

'منفرد شراکت'

55 رکنی افریقن کا قیام جولائی 2002 میں عمل میں آیا تھا۔ سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ اور افریقن یونین کے مابین تعاون سے متعلق حالیہ اجلاس میں سفیروں نے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا کہ تنظیم کے ساتھ اقوام متحدہ کے تعاون و اشتراک میں کتنی بہتری آئی ہے اور کون سے پہلو پر پیش رفت کی ضرورت برقرار ہے۔

گوتیرش کا کہنا تھا کہ ''گزشتہ 20 برس میں اقوام متحدہ اور افریقن یونین نے باہم منفرد شراکت قائم کی ہے جس کی بنیاد باہمی ترقی، احترام اور افریقہ کے استحقاق پر ہے اور یہ شراکت کثیرالجہتی تعاون کی بنیاد بن گئی ہے۔

انہوں ںے اقوام متحدہ اور افریقن یونین کے باہمی تعاون کی چند تازہ ترین مثالیں پیش کیں جن میں برکینا فاسو، گنی اور مالی میں دستوری نظام کی بروقت بحالی میں مدد دینے کے اقدامات بھی شامل ہیں جو مغربی افریقی ممالک کے علاقائی بلاک 'ای سی او ڈبلیو اے ایس' کے ساتھ مشترکہ طور پر کیے گئے۔

Tweet URL

دہشت گری اور حکمرانی سے متعلق خطرات

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ افریقہ میں جاری مسائل سے نمٹنے کے لیے ''عام طور پر طاقت کا استعمال ہی جھگڑے چکانے کا واحد طریقہ سمجھا جاتا ہے۔'' 

اس براعظم میں حکومتوں کی غیرآئینی طریقوں سے تبدیلی بھی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ انتہاپسند گروہ داعش اور القاعدہ سے منسلک عناصر ساحل خطے میں مہلک حملے کر رہے ہیں اور اپنی رسائی بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

مزید برآں طویل تنازعات اور کڑے انسانی حالات شاخِ افریقہ، ایتھوپیا، مشرقی جمہوریہ کانگو، مالی، سوڈان اور لیبیا کو بدستور متاثر کر رہے ہیں۔

تنازعات کی بروقت نشاندہی

انہوں ںے مزید کہا کہ ''عورتوں اور خاص طور پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی خواتین کے خلاف تشدد بڑھ رہا ہے۔ ہم غلط اطلاعات اور نفرت پر مبنی اظہار میں بھی اضافہ دیکھ رہے ہیں جنہیں اکثر جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔''

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ان مسائل کا حل واضح ہے۔ افریقہ کے ممالک کو تنازعات کی علامات کی بروقت نشاندہی کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی اور ان تنازعات کو متشدد صورت اختیار کرنے سے سے روکنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ''طرز حکمرانی میں خامیوں پر قابو پانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جن میں انسانی حقوق اور آزادیوں پر قدغن بھی شامل ہے جو استحکام اور پائیدار ترقی کے عمل کو کمزور کر دیتی ہے۔''

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات

اقوام متحدہ کے سربراہ نے موسمیاتی حوالے سے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جو قحط، طوفانوں اور سیلاب جیسی آفات کا باعث بن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افریقہ کے بہت سے ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی اب ''دور دراز خطرہ نہیں رہی بلکہ روزمرہ حقیقت بن چکی ہے'' حالانکہ اس براعظم کا دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بہت کم حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''یہ اخلاقی اور معاشی ناانصافی کی نمایاں مثال ہے۔''

گوتیرش نے سنگین مسائل کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کے خلاف دلیرانہ اقدامات کرنے والے بہت سے افریقہ ممالک، علاقوں اور شہروں کے کردار کو سراہا۔

امیر ممالک سے اپیل

موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر مصر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس سی او پی 27 کے انعقاد میں چند ہی ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور اس حوالے سے انتونیو گوتیرش نے امیر حکومتوں پر زور دیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محدود رکھنے اور انہیں ان اثرات کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے سالانہ 100 بلین ڈالر مہیا کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔

انہوں نے کہا کہ ''سی او پی27 کو موسمیاتی تبدیلی سے ترقی پذیر ممالک کو ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین محض اعتماد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ بہت سے ممالک، خصوصاً افریقہ کے لیے اپنی بقا کا مسئلہ بھی ہے۔''

اسی دوران کووڈ۔19 وبا اور یوکرین میں جاری جنگ نے دنیا بھر میں رہن سہن پر بھاری اخراجات کے بحران میں مزید اضافہ کر دیا ہے جس کے شدید سماجی اور معاشی اثرات سامنے آئے ہیں۔

ان حالات میں دنیا کے غیرمحفوظ اور کمزور ترین لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے اس صورتحال کو ''ناقابل قبول'' قرار دیتے ہوئے ترقیاتی امداد میں بڑے پیمانے پر اضافے کے حوالے سے اپنی حالیہ اپیل دہرائی۔

انہوں نے کہا کہ ''بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور کثیرفریقی بینک ایسی رکاوٹوں کو دور کریں جو ترقی پذیر ممالک کو انہیں درکار مالیاتی وسائل تک رسائی سے روکتی ہیں۔ ہمیں قرض سے چھٹکارے کے لیے ایک موثر عالمگیر طریقہ کار بھی درکار ہے۔ افریقہ کے بہت سے ممالک کو اس طریقہ کار کی فوری ضرورت ہے۔''

افریقین یونین کمیشن کے سربراہ موسیٰ فقی محمد (سکرین پر) سلامتی کونسل کو اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔
UN Photo/Rick Bajornas
افریقین یونین کمیشن کے سربراہ موسیٰ فقی محمد (سکرین پر) سلامتی کونسل کو اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔

افریقہ کے لیے رسائی

اے یو کمیشن کے چیئرپرسن موسیٰ فاکی مہمت نے کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ افریقہ ''اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ زیربحث آتا ہے''۔

قیام امن کے لیے قائم کردہ اقوام متحدہ کے تقریباً 70 فیصد مشن افریقہ میں تعینات ہیں اور ان کا استفسار تھا کہ افریقہ میں کتنے ملین ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا نکلا ہے۔

ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اجلاس میں شریک موسیٰ فاکی مہمت نے کہا کہ افریقہ نے امن اور سلامتی کی خاطر بہت سی قربانیاں دی ہیں۔

فرانسیسی زبان میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''افریقہ کو تاحال بہت سے مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کرنے کے لیے ہمیں اعلانات سے بڑھ کر کام کرنا ہو گا۔ ہمیں افریقہ کے مستقبل پر بات چیت کے لیے وقت طے کرنا ہو گا۔''

انہوں نے مزید کہا کہ براعظم افریقہ کو ''سائنس اور نئی ٹیکنالوجی کی لامحدود دنیا'' تک رسائی بھی ہونی چاہیے۔

تعلق کو مضبوط کریں

انہوں نے کہا کہ ''ہمیں ایسا نہیں ہونے دینا کہ زمین کا ایک حصہ اپنی دولت کے بوجھ تلے بیٹھ جائے اور دوسرا بھوک اور مفلسی کے درد سے کراہتا رہے۔''

انہوں نے اقوام متحدہ اور افریقن یونین کی شراکت اور خاص طور پر ان کے خصوصی اداروں، خصوصی نمائندوں اور امن و سلامتی برقرار رکھنے پر مامور ان کے متعلقہ اداروں کے مابین شراکت کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ''افریقہ میں امن کا معاملہ خاصا پیچیدہ ہے جسے ہم احترام، مساوات، شمولیت اور تبادلے کے ذریعے ہی حل کر سکتے ہیں۔''