انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سیلاب سے متاثرہ پاکستان میں صحت عامہ کو لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں: ڈبلیو ایچ او کا انتباہ

سندھ میں محکمہ صحت کے اہلکار سیلابی پانی اور ٹوٹے ہوئے پلوں کو پار کر کے لوگوں تک صحت کی سہولیات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
© WHO
سندھ میں محکمہ صحت کے اہلکار سیلابی پانی اور ٹوٹے ہوئے پلوں کو پار کر کے لوگوں تک صحت کی سہولیات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سیلاب سے متاثرہ پاکستان میں صحت عامہ کو لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں: ڈبلیو ایچ او کا انتباہ

صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان بھر کے بہت سے سیلاب زدہ علاقوں میں حالیہ ہفتوں میں سیلابی پانی اتر رہا ہے تاہم قریباً اسی لاکھ لوگوں کو ضروری طبی امداد کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے طبی ادارے کا کہنا ہے کہ تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے، کھڑےپانی اور نکاسیء آب کی ناکافی سہولتوں کے باعث صحت عامہ کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے ہنگامی حالات سے متعلق ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر رچرڈ برینن نے کہا ہے کہ یہ آفت ملک کو بہت بڑے مسائل کی زد میں لے آئی ہے اور بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

جولائی سے اکتوبر 2022 کے اوائل تک ملیریا کے 540,000 سے زیادہ کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر رچرڈ برینن

انہوں ںے مزید کہا کہ خوراک کا بحران سر پر کھڑا ہے، معیشت تباہ ہو رہی ہے اور سردی کا موسم تیزی سے آ رہا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ جن آٹھ لاکھ لوگوں کو طبی امداد کی ضرورت ہے انہیں بنیادی طبی سازوسامان اور ضروری طبی نگہداشت تک رسائی درکار ہے۔

کئی بیماریوں کے خطرات

ڈاکٹر برینن نے کہا کہ امدادی اداروں کو ایک کٹھن جدوجہد درپیش ہے۔ خاص طور پر بہت بڑی مقدار میں کھڑے سیلابی پانی نے مچھروں کی افزائش کے لیے سازگار ماحول بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں 32 اضلاع میں ملیریا کی وبا پھیل چکی ہے۔

جولائی سے اکتوبر 2022 کے اوائل تک ملیریا کے 540,000 سے زیادہ کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ صحت سے متعلق دیگر خطرات میں اسہالی بیماریوں کے مریضوں میں مسلسل اضافہ، ڈینگی بخار کی جاری وبا، خسرہ اور خناق شامل ہیں۔

انہوں ںے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں شدید غذائی قلت کی بلند شرح سب سے بڑے خدشات میں سے ایک ہے۔

''صاف پانی اور نکاسی آب تک رسائی محدود ہے، لوگ گھروں میں آلودہ پانی استعمال کر رہے ہیں۔ حاملہ خواتین کو زچگی کی صاف اور محفوظ خدمات تک رسائی کی ضرورت ہے۔''

ڈبلیو ایچ او نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے دیگر امدادی تقاضوں کے ہوتے ہوئے بین الاقوامی ردعمل سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ہنگامی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صحت کے بحران پر قابو پانے کے لیے 81.5 ملین ڈالر سے زیادہ مالی وسائل درکار ہیں تاکہ ضروری طبی خدمات کی مربوط فراہمی، شدید غذائی قلت پر قابو پانے کا موثر اہتمام اور وباؤں کی نشاندہی ہو سکے اور ان سے نمٹنے کے اقدامات یقینی بنائے جا سکیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ کا ایک موبائل ہیلتھ یونٹ۔
© UNICEF/Shehzad Noorani
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ کا ایک موبائل ہیلتھ یونٹ۔

ہنگامی ضرورت کے سامان کی فراہمی

ڈبلیو ایچ او نے واضح کیا کہ وہ دستیاب وسائل کے ذریعے صحت کو تحفظ دینے اور خصوصاً سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کو ساکن و متحرک طبی کیمپوں کے ذریعے ضروری خدمات کی فراہمی کے لیے فوری اقدامات کر رہا ہے۔

اب تک 1.5 ملین ڈالر مالیت کی ادویات اور ہنگامی طبی سازوسامان تقسیم کیا جا چکا ہے جبکہ 6 ملین سے زیادہ مالیت کا سازوسامان راستے میں ہے۔

وباؤں کی روک تھام اور ان پر قابو پانے کی کوششوں کو بڑھا دیا گیا ہے جن میں وباؤں کی نگرانی کا نظام مضبوط بنانا، خسرہ اور ہیضہ کے خلاف ویکسین مہم، ملیریا کی بروقت تشخیص و علاج اور صاف پانی تک رسائی کی فراہمی شامل ہیں۔

علاوہ ازیں سکھر، حیدرآباد اور نصیرآباد کے اضلاع میں ہنگامی طبی کارروائی کے 10 مراکز (ای او سی) اور تین عملی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔