انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ممکنہ قحط کو امن و سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنا چاہیے، یو این اہلکار

افغانستان کے صوبے بدخشان میں ایک خاندان اقوام متحدہ سے ملنے والی امدادی خوراک سے بنا کھانا کھا رہا ہے۔
© WFP/Sadeq Naseri
افغانستان کے صوبے بدخشان میں ایک خاندان اقوام متحدہ سے ملنے والی امدادی خوراک سے بنا کھانا کھا رہا ہے۔

ممکنہ قحط کو امن و سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنا چاہیے، یو این اہلکار

امن اور سلامتی

قحط کی روک تھام اور اس کے خلاف اقدامات کے لیے اقوام متحدہ کی رابطہ کار نے کہا ہے کہ قحط کے خطرے کو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے سرخ لکیر سمجھنا چاہیے۔ انہوں ںے خبردار کیا ہے کہ بھوک کو دانستہ جنگی چال کے طور استعمال کیا جا رہا ہے۔

رابطہ کار رینا گیلانی کا کہنا ہے کہ 2022 میں دنیا بھر میں 250 ملین سے زیادہ لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا تھا جو حالیہ برسوں میں ایسی سب سے بڑی تعداد ہے۔

Tweet URL

سات ممالک میں تقریباً 376,000 لوگوں کو قحط جیسے حالات درپیش ہیں اور یہ ساتوں ملک جنگ یا انتہائی درجے کے تشدد سے متاثرہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں مزید 35 ملین لوگ قحط کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ 

قحط اور جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والے عالمگیر غذائی عدم تحفظ کے معاملے پر سلامتی کونسل میں ہونے والے کھلے مباحثے کے دوران بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھوک اور جنگ ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔ اس مباحثے کا انعقاد امریکہ نے کیا ہے جو رواں اگست میں سلامتی کونسل کی صدارت بھی کر رہا ہے۔

تنازعات غذائی عدم تحفظ کا سبب

انہوں نے کہا کہ مسلح تنازعات خوراک کے نظام اور روزگار کو تباہ کر دیتے ہیں اور لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرتے ہیں۔ نتیجتاً بہت سے لوگوں کو شدید نوعیت کی بدحالی اور بھوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ کیفیات جنگ کے ذیلی اثرات ہوتی ہیں تاہم زیادہ تر انہیں جان بوجھ کر اور غیرقانونی طور سے پیدا کیا جاتا ہے اور بھوک جنگی چال کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ 

رینا گیلانی نے کہا کہ غذائی عدم تحفظ بذات خود عدم استحکام کو بڑھاوا دیتا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں ایک تحقیق کا حوالہ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے غذائی عدم تحفظ پہلے سے موجود محرومیوں، غربت اور عدم مساوات کے ساتھ مل کر لوگوں کو امن پر تشدد کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ بہت بڑے بحرانوں کو جنم دیتا ہے اور مسلح تنازعات کا باعث بنتا ہے۔ 

امدادی کارکنوں پر حملے 

رینا گیلانی نے مزید کہا کہ لوگوں کو امداد مہیا کرنے اور قحط کو روکنے میں مدد دینے والے بھی لڑائی کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ 

ہر سال جنگوں کے دوران سیکڑوں امدادی کارکن ہلاک، زخمی اور اغوا ہوتے ہیں اور امدادی مراکز اور سامان کو اکثر حملوں کا نشانہ بنایا، لوٹا اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ 

سوڈان میں اقوام متحدہ، این جی اوز اور شراکت داروں کو درپیش مشکلات اس کی ایک واضح مثال ہیں۔ انہوں نےحالیہ ہفتوں کے دوران سوڈان میں ہلاک ہونے والے 11 امدادی کارکنوں کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ 

موسمیاتی تبدیلی اور وسائل کی قلت

رینا گیلانی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی تیزی سے بحرانوں میں کئی گنا اضافہ کر رہی ہے۔ اس کے باعث پانی اور دیگر قدرتی وسائل کی قلت پیدا ہو رہی ہے جس سے سکڑتے قدرتی وسائل پر تصرف کے لیے مسابقت، نقل مکانی اور بالآخر جنگوں اور بھوک جیسے مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ 

اس کے ساتھ، جنگ سے متاثرہ ممالک میں پایا جانے والا عدم تحفظ موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ 

ان حالات میں پہلے ہی بدحال لوگ مزید غربت، بھوک اور عدم استحکام کا شکار ہو رہے ہیں۔ 

'ترقی ممکن ہے'

انہوں ںے واضح کیا کہ بڑھتے ہوئے مسائل کے باوجود ترقی ممکن ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے ایسے اہم اقدامات کے بارے میں بتایا جو اس بحران پر قابو پانے کے لیے اٹھائے جانا ضروری ہیں۔ 

ان میں جنگی فریقین کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قانون کا احترام یقینی بنایا جانا اور خاص طور پر خوراک اور پانی کے نظام کو تحفظ دینا اور انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی میں سہولت مہیا کرنا بھی شامل ہے۔ 

انہوں نے قدرتی آفات کے بارے میں بروقت آگاہی مہیا کرنے کے نظام سے بہتر انداز میں کام لینے پر بھی زور دیا۔ اس سلسلے میں موثر مابعد اقدامات، خاطرخواہ مقدار میں امدادی وسائل کی فراہمی اور انتہائی غیرمحفوظ لوگوں پر جنگ کے اثرات کو محدود رکھنے کے لیے دلیرانہ اور تخلیقی طریقے اختیار کرنے کی خاص اہمیت ہے۔ 

اس کے علاوہ خواتین اور لڑکیوں کو اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں میں مرکزی اہمیت دی جانی چاہیے۔ 

رینا گیلانی نے واضح کیا کہ بحران اور بھوک خواتین اور لڑکیوں کو غیرمتناسب طور سے متاثر کرتے ہیں جبکہ ان مسائل کے پائیدار حل کی کنجی بھی خواتین کے پاس ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ قیام امن کی کارروائیوں میں مقامی خواتین کو شامل کرنے سے تشدد میں 24 فیصد تک کمی آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ 

'بہرا کرنے والی چیختی خاموشی'

بریفنگ کے آخر میں انہوں نے قحط کے دھانے پر موجود لوگوں سے ملاقاتوں کے حوالے سے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا۔ 

رینا گیلانی نے بتایا کہ وہ بے گھر لوگوں کے بہت سے کیمپوں میں غذائیت کی فراہمی کے لیے مخصوص بہت سی جگہوں پر ماؤں سے ملی ہیں۔ ان کے بچے زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں جو اس قدر کمزور ہیں کہ رو بھی نہیں سکتے حتیٰ کہ ان کے لیے منہ سے کوئی آواز نکالنا بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ بھیانک خاموشی بہرا کر دیتی ہیں اور اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔