انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دنیا کے اٹھارہ مقامات پر خوارک کی شدید قلت، یو این اداروں کا انتباہ

ہیٹی میں سولہ لاکھ لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جس سے بچے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
© UNICEF/Herold Joseph
ہیٹی میں سولہ لاکھ لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جس سے بچے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

دنیا کے اٹھارہ مقامات پر خوارک کی شدید قلت، یو این اداروں کا انتباہ

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ شدید غذائی قلت کا شکار 18 بحران زدہ علاقوں میں فوری مدد نہ پہنچائی گئی تو انہیں تباہ کن بھوک اور قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) اور عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے کہا ہے کہ اگرچہ شدید غذائی قلت کا سامنا کرنے والے بیشتر علاقے افریقہ میں واقع ہیں، تاہم غزہ اور سوڈان میں بھی قحط کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ان حالات میں غذائی قلت کے ہنگامی صورت اختیار کرنے کا خدشہ ہے۔

Tweet URL

دونوں اداروں نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر 17 ممالک اور خشک سالی کا شکار مالی، موزمبیق، زیمبیا اور زمبابوے میں قحط کے خدشات کی بابت انتباہی رپورٹ تیار کی ہے۔ اس میں خبردار کیا گیا ہے کہ مالی، فلسطین، سوڈان اور جنوبی سوڈان میں اس حوالے سے فوری توجہ درکار ہے۔ ہیٹی بھی اس فہرست میں شامل ہے جہاں تشدد بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ شدید غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ 

چاڈ، شام اور یمن کی صورتحال

رپورٹ کے مطابق چاڈ، جمہوریہ کانگو، میانمار، شام اور یمن کو غذائی قلت کے حوالے سے خطرناک حالات کا سامنا ہے۔ ان ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد کو انتہائی شدید درجے کی غذائی قلت درپیش ہے جبکہ آنے والے مہینوں میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ 

اکتوبر 2023 کے بعد وسطی جمہوریہ افریقہ، لبنان، موزمبیق، میانمار، نائجیریا، سیرالیون اور زیمبیا جیسے ممالک بھی برکینا فاسو، ایتھوپیا، ملاوی، صومالیہ اور زمبابوے کے ساتھ شدید غذائی قلت کا شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان تمام جگہوں پر آئندہ مہینوں کے دوران غذائی عدم تحفظ میں مزید بگاڑ آنے کا اندیشہ ہے۔ 

'ڈبلیو ایف پی' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی مکین نے کہا ہے کہ جب کسی جگہ قحط پھیل جائے تو پھر لوگوں کو تحفظ پہنچانے میں بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور بہت سے لوگ پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 2011 میں صومالیہ میں قحط پھیلنے کا اعلان ہونے سے قبل ہی ڈھائی لاکھ افراد بھوک سے ہلاک ہو گئے تھے۔ اس وقت دنیا نے قحط کے بارے میں انتباہ کو نظرانداز کیا جس کے تباہ کن نتائج  برآمد ہوئے۔ ایسے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور ان علاقوں کو پیشگی مدد پہنچائی جانا چاہیے جہاں تباہ کن بھوک پھیلنے کا خدشہ ہو۔

مغربی ڈارفر میں نقل مکانی پر مجبور لوگ مہاجرین کے ایک مرکز پر خوراک کی تقسیم کے منتظر بیٹھے ہیں۔
© WFP/World Relief
مغربی ڈارفر میں نقل مکانی پر مجبور لوگ مہاجرین کے ایک مرکز پر خوراک کی تقسیم کے منتظر بیٹھے ہیں۔

جنوبی سوڈان کا تباہ کن بحران

جنوبی سوڈان کو بھوک کے تباہ کن بحران کا سامنا ہے جہاں رواں سال اپریل اور جولائی کے درمیانی عرصہ میں بھوک اور اس کے نتیجے میں موت کے خطرات سے دوچار لوگوں کی تعداد گزشتہ برس اسی عرصہ کے مقابلے میں دو گنا بڑھ گئی ہے۔ 

سنڈی مکین نے کہا ہے کہ اندرون ملک غذائی قلت اور کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی کے باعث خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ سیلاب اور تنازعات نے ان حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ ہمسایہ ملک سوڈان سے واپس آنے والے شہریوں اور سوڈانی پناہ گزینوں کی بڑھتی تعداد سے شدید غذائی قلت میں اضافے کا امکان ہے جس سے یہی لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ 

شدید موسمیاتی کیفیات

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ مسلح تنازعات غذائی عدم تحفظ کے سب سے بڑے محرکات ہیں، تاہم موسمیاتی کیفیت 'ال نینو' کے طوالت پکڑنے سمیت موسمی شدت کے واقعات بھی اس کا بڑا سبب ہیں۔ 

اگرچہ 'ال نینو' اب تھمنے کو ہے تاہم گزشتہ برسوں میں اس کے نہایت شدید اور وسیع اثرات سامنے آئے جن میں افریقہ کے جنوبی ممالک میں تباہ کن خشک سالی اور مشرقی افریقہ میں بڑے پیمانے پر سیلاب خاص طور پر نمایاں ہیں۔ 

دونوں اداروں نے اگست 2024 اور فروری 2025 کے مابین موسمی کیفیت 'لا نینا' کے ممکنہ اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بارشوں کے نظام پر نمایاں اثرات مرتبہ ہوں گے۔ نتیجتاً بہت سے ممالک میں نمایاں موسمیاتی تبدیلی آئے گی اور جنوبی سوڈان، صومالیہ، ایتھوپیا، ہیٹی، چاڈ، مالی، نائجیریا اور سوڈان میں سیلاب آ سکتے ہیں۔

غزہ میں جانے والی امداد میں پچاس فیصد کمی سے لوگوں کو اشیائے خوردونوش کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
© UNRWA
غزہ میں جانے والی امداد میں پچاس فیصد کمی سے لوگوں کو اشیائے خوردونوش کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

بھوک اور ہلاکتوں کی روک تھام

اداروں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں موسمیاتی مظاہر موسمی شدت کے واقعات جیسا کہ شدید بارشوں، سیلاب اور خشک سالی میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس طرح انسانی زندگیاں اور روزگار خطرے میں ہوں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھوک اور اس سے ہونے والی اموات کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر فوری امدادی اقدامات نہ کیے گئے تو بہت سی جگہوں پر انسانی المیے رونما ہونے کا خدشہ ہے۔