کاپ 27 کچھ مختلف کرنے کے نئے عہد کا آغاز، کانفرنس کے افتتاح پر یو این ایف سی سی کے سربراہ کا بیان
یو این کلائمیٹ کنونشن کے سربراہ نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر شرم الشیخ میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں دنیا کو اپنی توجہ انسانیت کو درپیش بڑے مسائل پر قابو پانے کے طے شدہ منصوبوں پر عملدرآمد کی جانب منتقل کرنی چاہیے۔
یو این کلائمیٹ کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کے نئے ایگزیکٹو سیکرٹری سائمن سٹیئل نے یہ بات موسمی مسائل پر اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنس 'کاپ 27' کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ٹونینو لمبورگینی انٹرنیشنل کنونشن سنٹر میں تمام مندوبین پر مشتمل افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سٹیئل کا کہنا تھا کہ ''آج ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے اور ہم پہلے سے مختلف انداز میں کام کا آغاز کر رہے ہیں۔ پیرس نے ہمیں معاہدہ دیا۔ کیٹوویس اور گلاسگو نے ہمیں منصوبہ دیا۔ شرم الشیخ ہمیں اس پر عملدرآمد کی جانب لے جائے گا۔ کوئی اس سفر میں محض مسافر نہیں ہو سکتا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وقت تبدیل ہو گیا ہے۔
موسمیاتی امور پر اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ دنیا بھر کے رہنما، خواہ وہ صدور ہوں، وزرائے اعظم یا اداروں کے منتظمین اعلیٰ، ان سے گزشتہ برس گلاسگو میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ''اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں، ہمارے کاروبار، ہمارا بنیادی ڈھانچہ اور ہمارے افعال خواہ نجی نوعیت کے ہوں یا سرکاری، انہیں پیرس معاہدے اور اقوام متحدہ کے موسمیاتی کنونشن کے مطابق ہونا چاہیے۔''
یو این ایف سی سی کنونشن کا اطلاق 21 مارچ 1994 کو ہوا تھا اور اس کا مقصد موسمیاتی نظام میں ''خطرناک'' انسانی مداخلت کی روک تھام کرنا تھا۔ اب تک 198 ممالک اس کی منظوری دے چکے ہیں اور اس طرح قریباً پوری دنیا ہی اس کنونشن کی فریق ہے۔ 2016 میں طے پانے والا پیرس معاہدہ اسی کنونشن کی توسیع ہے۔
وعدوں کی تکمیل کریں
سٹیئل نے حالیہ پیچیدہ ارضی سیاسی صورتحال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ کاپ 27 عالمگیر تبدیلی لانے کے لیے ایک ایسے محفوظ سیاسی ماحول میں کام کرنے کا موقع ہے جو دنیا میں پیش آنے والے واقعات کے اثرات سے محفوظ ہو۔
انہوں نے زور دیا کہ ''یہاں شرم الشیخ میں ہمارا فرض ہے کہ اپنے الفاظ کو عملی صورت دینے کے لیے بین الاقوامی سطح پر اپنی کوششیں تیز کریں۔''
یو این ایف سی سی سی کے ایگزیکٹو سیکرٹری نے اس کانفرنس کے لیے تین اہم عملی خطوط کو واضح کیا:
- مزاکرات کے نتیجے میں ٹھوس اقدامات کے ذریعے عملدرآمد کی جانب منتقلی کا عملی مظاہرہ۔
- تخفیف، مطابقت، مالیات اور خاص طور پر نقصان اور ازالے پر مشتمل پر اقدامات پر پیش ہائے رفت کو باہم مربوط بنانا۔
- اس تمام عمل میں شفافیت اور جواب دہی کے اصولوں کو عام کرنا۔
انہوں ںے مندوبین سے کہا کہ ''میں ان تفصیلی منصوبوں کا خیرمقدم کرتا ہوں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے جو وعدے کیے ہیں انہیں کیسے پورا کیا جائے۔''
پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں
سٹیئل نے خود کو ''سربراہِ احتساب'' قرار دیتے ہوئے کہا کہ کاپ 26 کے بعد اب تک صرف 29 ممالک ہی اپنے کڑے قومی موسمیاتی منصوبے سامنے لائے ہیں جبکہ گزشتہ ہفتے یو این ایف سی سی کی این ڈی سی ترکیبی رپورٹ کی اشاعت کے بعد مزید پانچ ممالک نے اپنے منصوبے پیش کیے ہیں تاہم یہ بہت قلیل تعداد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''اسی لیے میں یہاں ان 170 ممالک کو دیکھ رہا ہوں جنہوں نے اس سال اپنے قومی وعدوں پر نظرثانی کرنا اور انہیں بہتر بنانا ہے۔''
انہوں نے مندوبین کو یاد دہانی کرائی کہ گزشتہ برس کاپ 26 میں گلاسگو کلائمیٹ پیکٹ طے پایا تھا اور کہا کہ انہیں توقع ہے کہ وہ اپنے الفاظ پر قائم رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ''اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔ یہاں مصر میں ان پر عملدرآمد کا عمل شروع کریں۔ میں معکوس ترقی کا نگران نہیں بنوں گا۔''
ایک جامع عمل
موسمیاتی امور پر اقوام متحدہ کے سربراہ نے واضح کیا کہ خواتین اور لڑکیوں کو موسمیاتی امور پر فیصلہ سازی اور عملی اقدامات میں مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ ان الفاظ پر اجلاس کے شرکا نے داد و تحسین کا اظہار کیا۔
انہوں نے کاپ 27 کے کام میں سول سوسائٹی کے اداروں اور نوجوانوں کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ''خواتین کو بااختیار بنائے جانے سے بہتر حکمرانی اور بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔''
نئی صدارت
تمام مندوبین پر مشتمل افتتاحی اجلاس میں برطانیہ کے نمائندے اور کاپ 26 کے صدر الوک شرما نے کانفرنس کی صدارت باقاعدہ طور سے مصر کے نمائندے اور کاپ 27 کے صدر سامہ شکری کے حوالے کی۔
شرما نے گزشتہ برس گلاسگو میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کا جائزہ پیش کیا۔ پیرس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے رہنما ہدایات پر مبنی 'پیرس رول بُک' کو حتمی شکل دینا اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بھرپور مالی وسائل مہیا کرنا ان کامیابیوں کی نمایاں مثال ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ''اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ 'ہمارا مشترکہ طویل مدتی مستقبل معدنی ایندھن سے وابستہ نہیں ہے' اور میں ان سے پوری طرح متفق ہوں۔''
کاپ 26 کے صدر کے مطابق اگر نیٹ زیرو ہدف کے حصول سمیت گزشتہ برس کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کیا جائے تو اس صدی کے آخر تک دنیا عالمی حدت کو 1.7 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کی راہ پر ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ''اگرچہ یہ 1.5 ڈگری نہیں ہے'' لیکن دنیا کو درپیش مسئلے کے حجم کو دیکھتے ہوئے اسےنمایاں پیش رفت ضرور کہا جا سکتا ہے
سٹیئل کی بات کو دہراتے ہوئے انہوں نے دنیا کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ موجودہ ارضی سیاسی مسائل کے باوجود عملی اقدامات کریں۔
انہوں ںے کہا کہ ''اس قدر بڑے مسئلے کے ہوتے ہوئے بے عملی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گی جس سے موسمیاتی تباہی کو وقتی طور پر موقوف رکھنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اسی لیے ہمیں بیک وقت ایک سے زیادہ چیزوں پر توجہ دینے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔
مصر کا عملدرآمدی اقدامات کا مطالبہ
کاپ 27 کے صدر سامہ شکری نے مندوبین سے کہا کہ وہ اپنے عزائم میں اضافہ کریں اور اپنے وعدوں پر عملدرآمد شروع کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ''مذاکرات اور وعدوں سے اب عملدرآمد کے دور میں داخل ہونا ہماری ترجیح ہے۔'' انہوں ںے ایسے ممالک کی ستائش کی جو پہلے ہی اپنے تازہ ترین قومی موسمیاتی منصوبے پیش کر چکے ہیں۔
شکری نے مزید کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی مطابقت کی مد میں 100 بلین ڈالر دینے کے وعدے پر عملدرآمد ہونا چاہیے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے سے متعلق بات چیت میں مالیات کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ''پُرامید طور سے آئندہ دو ہفتوں میں ہونے والی بات چیت کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ میں آپ تمام لوگوں پر زور دیتا ہوں کہ دھیان سے سنیں، عملدرآمد کا عہد کریں اور سیاسی عزائم کو ایسے معاہدوں، سمجھوتوں، دستاویزات اور قراردادوں میں تبدیل کریں جن پر ہم سب عمل کر سکیں۔''
انہوں نے خبردار کیا کہ ''ایسے اقدامات سے کسی کا بھلا نہیں ہو گا جن سے نہ فائدہ ہو اور نہ ہی نقصان۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیے جانے والے مذاکرات کے نتائج دنیا بھر میں ان لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور روزگار پر مرتب ہوں گے جو موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہو رہے ہیں۔
انہوں ںے زور دے کر کہا کہ ''ہم کسی طرح کی لاپروائی یا کوتاہی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم آنے والےنسلوں کے مستقبل کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔''
نقصان اور ازالہ
اتوار کو کانفرنس کے باضابطہ افتتاحی اجلاس میں اس کے ایجنڈے میں شامل ایسے امور پر بھی اتفاق کیا گیا جو کاپ 27 میں آئندہ دو ہفتوں تک زیربحث آئیں گے۔
'نقصان اور ازالہ' ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں کانفرنس کے آغاز سے پہلے غیریقینی پائی جاتی تھی اور بالاآخر گروپ آف 77 اور چین (جس میں تمام ترقی پذیر ممالک شامل ہیں) کے مذاکرات کاروں کے کہنے پر اور یو این کلائمیٹ کنونشن کے 194 فریقین کے مابین جامع بات چیت کے بعد اسے ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا۔
موسمیاتی تبدیلی شدید موسمی حالات جیسا کہ استوائی طوفانوں، ہریالی کے خاتمے اور سطح سمندر میں بلندی کے ذریعے ممالک کو بھاری نقصان پہنچاتی ہے۔
چونکہ ان ''قدرتی آفات'' میں شدت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کے نتیجے میں آتی ہے جس کے زیادہ تر ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک ہیں، اسی لیے اس تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک کا دیرینہ استدلال ہے کہ انہیں اس نقصان کا معاوضہ ملنا چاہیے۔
'نقصان اور ازالے' کے نام سے معروف ان ادائیگیوں کا معاملہ کاپ 27 میں بحث و مباحثے کا ایک اہم موضوع ہو گا۔