انسانی کہانیاں عالمی تناظر

موسمیاتی تبدیلی بعض جگہوں پر کینسر سے زیادہ مہلک ہے: یو این ڈی پی

ڈھاکہ کا ایک بازار۔ اندازوں کے مطابق 2100 تک بنگلہ دیش میں موسمیاتی مسائل سے اموات کی تعداد کینسر سے ہونے والی اموات سے دوگنا ہونگی۔
©UNDP/Fahad Kaizer
ڈھاکہ کا ایک بازار۔ اندازوں کے مطابق 2100 تک بنگلہ دیش میں موسمیاتی مسائل سے اموات کی تعداد کینسر سے ہونے والی اموات سے دوگنا ہونگی۔

موسمیاتی تبدیلی بعض جگہوں پر کینسر سے زیادہ مہلک ہے: یو این ڈی پی

موسم اور ماحول

کاربن کا اخراج اونچے درجے پر برقرار رہنے کی صورت میں دنیا کے بعض حصوں میں انسانی صحت پر موسمیاتی تبدیلی کا اثر کینسر سے دو گنا زیادہ مہلک ہو سکتا ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور کلائمیٹ امپیکٹ لیب کی جانب سے جمعے کو جاری کردہ نئی معلومات میں بتائی گئی ہے۔

دونوں اداروں کے اس جائزے میں بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی مثال دی گئی ہے جہاں کاربن کے انتہائی درجہ اخراج کی صورت میں 2100 تک موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی اضافی اموات ملک میں ہر طرح کے کینسر سے ہونے والی سالانہ اموات سے دو گنا زیادہ اور ہر سال ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات سے 10 گنا زیادہ ہو سکتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نئے شروع کردہ 'ہیومن کلائمیٹ ہورائزنز' پلیٹ فارم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ''انسانی سرگرمی کے باعث ہماری فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ارتکاز خطرناک حدود کو چھو رہا ہے جو کرہ ارض کے درجہ حرارت کو بلند تر سطح پر لے جا رہا ہے اور شدید موسمی واقعات کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ مرتکز اور فوری اقدام کے بغیر موسمیاتی تبدیلی عدم مساوات اور غیرمساوی ترقی کو مزید بڑھا دے گی۔''

Tweet URL

موسمیاتی تبدیلی سے اموات

انسانی ترقی سے متعلق 2020، 2021 اور 2022 کی رپورٹوں کے تجزیے کی بنیاد پر اور بہتر سے بہتر تحقیق کی مدد سے حاصل کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے موسمیاتی تبدیلی اخلاقیات سے لے کر روزگار اور توانائی کے استعمال تک لوگوں کی زندگی پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

اگرچہ بلند درجہ حرارت اور گرم موسم ہر جگہ دورانِ خون اور تنفس کے نظام کو دباؤ میں رکھتے ہیں لیکن ان کے اثرات موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے درکار وسائل کے حامل اور ان سے محروم لوگوں کے لیے الگ الگ ہوتے ہیں۔   

ان معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کے شہر فیصل آباد میں شرح اموات بڑھ کر ہر ایک لاکھ افراد میں 67 تک پہنچ سکتی ہے اور یہ اموات فالج سے ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ ہوں گی جو ملک میں لوگوں کی موت کا تیسرا سب سے بڑا سبب ہے۔

تاہم سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں یہ شرح ہر ایک لاکھ افراد میں 35 اموات تک محدود رہے گی کیونکہ وہاں آمدنی کی شرح زیادہ ہے۔ تاہم یہ شرح اموات بھی الزائمر کے باعث مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے جو دنیا بھر میں ہونے والی اموات کا چھٹا سب سے بڑا سبب گردانا جاتا ہے۔

بڑھتا ہوا درجہ حرارت

تحقیق کے مطابق 19ویں صدی سے زمین کے اوسط درجہ حرارت میں قریباً 1.2 ڈگری سیلسیئس تک اضافہ ہوا ہے جس سے کرہ ارض میں ہر جگہ موسمی کیفیات تبدیل ہو گئی ہیں۔

تاہم لاکھوں لوگ ایسے خطوں میں رہتے ہیں جو پہلے ہی عالمگیر اوسط سے کہیں زیادہ گرمی کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔

پلیٹ فارم نے اس حوالے سے وینزویلا کے شہر میراکائبو کی مثال دی ہے جہاں 1990 کی دہائی میں ہر سال 62 ایام میں درجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کرتا تھا۔ لیکن اس صدی کے وسط تک یہ عرصہ 201 ایام تک محیط ہو سکتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے توانائی پر اثرات

یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ بجلی کی دستیابی اور ایئر کنڈیشنروں اور ہیٹروں کو توانائی مہیا کرنے کے لیے یہ بجلی پیدا کرنے میں استعمال ہونے والا ایندھن انتہائی درجہ حرات سے نمٹنے کی ہماری اہلیت پر اہم اثر ڈالتے ہیں۔

تاہم توانائی کے استعمال کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مقامی سطح پر الگ الگ ہوتے ہیں کیونکہ افراد، معاشرے اور کاروبار توانائی کے دستیاب ذرائع استعمال کر کے حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر جکارتہ میں گرمی کے موسم میں بجلی کی کھپت انڈونیشیا میں فی الوقت گھروں میں استعمال ہونے والی مجموعی بجلی کے ایک تہائی سے بڑھ جائے گی۔ اس مقصد کے لیے بنیادی ڈھانچے کے لیے اہم نوعیت کی اضافی منصوبہ بندی درکار ہو گی۔

تحقیق کے مطابق 19ویں صدی سے زمین کے اوسط درجہ حرارت میں قریباً 1.2 ڈگری سیلسیئس تک اضافہ ہوا ہے جس سے کرہ ارض میں ہر جگہ موسمی کیفیات تبدیل ہو گئی ہیں۔

استعدادِ کار متاثر

متواتر اور شدت سے پڑنے والی گرمی روزگار پر بھی اثرانداز ہوتی ہے جس سے کام کرنے کی اہلیت متاثر ہوتی ہے اور کام کے زور اور دورانیے پر اثر پڑتا ہے۔

پلیٹ فارم کی جاری کردہ معلومات کے مطابق ''معیشت کے مختلف شعبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زراعت، تعمیرات، کان کنی اور صنعت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے کارکن اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان شعبوں میں کام کرنے والوں کو موسمی اثرات کا براہ راست سامنا رہتا ہے۔

شدید گرمی کے باعث نائیجر کے شہر نیامی میں تعمیرات، کان کنی اور صنعت کے شعبوں میں کام کا سالانہ دورانیہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں 36 گھنٹے کم ہے جس سے ملک کے مستقبل کے جی ڈی پی میں 2.5 فیصد کمی رہے گی۔

ساحل کے کئی دوسرے علاقوں کی طرح نائیجرمیں بھی موسمیاتی بحران خشک سالی اور قحط کا سبب بن رہا ہے۔
© FAO/IFAD/WFP/Luis Tato
ساحل کے کئی دوسرے علاقوں کی طرح نائیجرمیں بھی موسمیاتی بحران خشک سالی اور قحط کا سبب بن رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے انسانوں پر اثرات

چونکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دنیا بھر میں ایک جیسے نہیں ہوتے اس لیے آںے والے برسوں اور دہائیوں میں عدم مساوات میں بھی نمایاں اضافہ ہو گا۔

چونکہ مستقبل پہلے سے متعین نہیں ہوتا اس لیے یو این ڈی پی کو امید ہے کہ یہ معلومات ہر جگہ لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کا اہل بنا سکتی ہیں۔

'ہیومن کلائمیٹ ہورائزن' کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے آئندہ اثرات کے بارے میں معلومات تک مساوی رسائی اور آگاہی پر مبنی فیصلہ سازی یقینی بنانا اور ہر ایک کو مختلف منظرناموں میں موسمیاتی تبدیلی کے انسانوں پر اثرات کو سمجھنے میں مدد دینا ہے۔

'منطقی معاشی انتخاب'

یو این ڈی پی نے اس ہفتے 'منصفانہ منتقلی پیرس معاہدے کو کیسے کارآمد بنا سکتی ہے' کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ''سبز انقلاب'' کو اپنایا جائے یا بڑھتی ہوئی سماجی عدم مساوات، عوامی بے چینی اور معاشی نقصان کا خطرہ مول لیا جائے۔

اتوار کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس 'سی او پی27' سے پہلے یہ رپورٹ پیرس معاہدے میں طے کردہ موسمیاتی اہداف کے حصول کے لیے ''منصفانہ اور مساوی'' منتقلی کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔

یو این ڈی پی کے سربراہ ایکم سٹینر نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ کارکنوں کو نئی ماحول دوست معاشی صلاحیتوں اور سماجی تحفظ تک رسائی فراہم کرنے سے لے کر نیٹ زیرو مستقبل کی جانب ممالک کی واضح راہ کا تعین یقینی بنانے تک اس بارے میں ''حقیقی بصیرت مہیا کرتی ہے کہ ایک ایسی منصفانہ منتقلی کی جانب سفر کی رفتار کیسے تیز کی جا سکتی ہے جو توانائی کے شعبے اور دیگر کے لیے منصفانہ اور مساوی ہو۔''

پاکستان کے صوبہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقے میں ایک خاندان ایک عارضی ٹھکانے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
© UNICEF/Shehzad Noorani
پاکستان کے صوبہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقے میں ایک خاندان ایک عارضی ٹھکانے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔

منصفانہ منتقلی

رپورٹ 'متعین قومی حصے' (این ڈی سی) یعنی ممالک کی جانب سے مختصر مدتی موسمیاتی وعدوں اور ایسی طویل مدتی حکمت عملی میں اضافے کا تجزیہ کرتی ہے جس میں ممالک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج نیٹ زیرو سطح پر لانے کے لیے اپنے منصوبے ترتیب دیتے ہیں۔

حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ منصفانہ منتقلی کے لیے اپنے متعین قومی حصے میں اضافہ کرنے والے 72 فیصد ممالک انہیں سماجی معاشی ازالے سے جوڑ رہے ہیں جبکہ 66 فیصد موسمیاتی انصاف کے معاملے میں ٹھوس اقدامات اور ترغیبی اہداف کی تجویز دے رہے ہیں۔

تاہم، یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ وہ انہیں پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) یا مختصر اور طویل مدتی موسمیاتی منصوبوں میں صنفی مساوات سے جوڑنے میں ناکام ہیں اور اس طرح ایک اہم موقع کھو رہے ہیں۔

سٹینر کا کہنا ہے کہ ''موسمیاتی تبدیلی شدت اختیار کر رہی ہے اور دنیا کو توانائی کے بہت بڑے بحران کا سامنا ہے تو ایسے میں معدنی ایندھن کا استعمال بند کرنا اور مستقبل کے لیے ماحول دوست توانائی کے ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنا ہی واحد منطقی معاشی انتخاب ہے۔''