انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کووڈ۔19: عالمی ادارہِ صحت کا وائرس بارے معلومات کے تبادلے پر زور

کمبوڈیا میں کووڈ۔19 کی بوسٹر ویکسین لگوانے کے لیے لوگ قطار میں کھڑے ہیں۔
© UNICEF/Bunsak But
کمبوڈیا میں کووڈ۔19 کی بوسٹر ویکسین لگوانے کے لیے لوگ قطار میں کھڑے ہیں۔

کووڈ۔19: عالمی ادارہِ صحت کا وائرس بارے معلومات کے تبادلے پر زور

صحت

ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اگرچہ کووڈ۔19 وبا کی نئی اقسام کی نشاندہی اور ان کے پھیلاؤ کے بارے میں باخبر رہنے کے لیے وائرس کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے تاہم دنیا بھر میں ان معلومات کے تبادلے کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے اپنی تازہ ترین میڈیا بریفنگ میں کہا ہے کہ ''اومیکرون وائرس کی لہر کے عروج سے اب تک اس کی ترتیب کے بارے میں معلومات کے تبادلے میں 90 فیصد سے زیادہ حد تک کمی آئی ہے اور اس بارے میں اطلاعات کا تبادلہ کرنے والے ممالک کی تعداد ایک تہائی رہ گئی ہے۔''

Tweet URL

انہوں نے کہا کہ کووڈ۔19 کا باعث بننے والے وائرس 'سارس۔کوو۔2' کی پہلی ترتیب کے بارے میں دنیا کے ساتھ معلومات کا تبادلہ تین برس پہلے ہوا تھا جس کی بدولت اس بیماری کی جانچ کے طریقے (ٹیسٹ) وضع کرنے اور اس کی روک تھام کے لیے ویکسین کی تیاری میں مدد ملی۔

انہوں نے کہا کہ ''ہم اس وقت کووڈ۔19 کے شدید پھیلاؤ کا سامنا کرنے والے تمام ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس کی ترتیب کاری میں اضافہ کریں اور اس بارے میں معلومات سے دوسرے ممالک کو بھی آگاہ کریں۔''

وائرس کی نئی اقسام کا تجزیہ

ڈبلیو ایچ او کے ایک مشاورتی گروپ نے اومیکرون کی نئی ذیلی قسم ایکس بی بی۔1.5 کے بارے میں ایک جائزہ شائع کیا ہے۔ یہ قسم پہلی مرتبہ گزشتہ سال اکتوبر میں سامنے آئی تھی۔

وائرس کی ترتیب کے بارے میں معلومات 38 ممالک سے سامنے آئی ہیں جن میں امریکہ سرفہرست ہے۔

وائرس کے ارتقا کے بارے میں تکنیکی مشاورتی گروپ (ٹی اے جی۔وی ای) نے کہا ہے کہ ''ایکس بی بی۔1.5 اپنی جینیاتی خصوصیات اور جلد بڑھوتری کی شرح کی بنیاد پر اس بیماری کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتا ہے۔

اب تک وائرس کی تشخیص کے حوالے سے مجموعی اعتماد کم سطح پر ہے کیونکہ اس میں بڑھوتری کے بارے میں تخمینے صرف امریکہ کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔''

جانچ اور معلومات

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے اس بیماری کی جانچ کی اہمیت پر بھی زور دیا جو اس کی نئی اقسام کے بارے میں جاننے اور اس کے خطرے کی زد میں آنے والے لوگوں کو مناسب طبی نگہداشت کی فراہمی میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق فروری 2022 سے اب تک کووڈ۔19 سے ہونے والی اموات کی تعداد میں ہر ہفتے 90 فیصد تک کمی آئی ہے تاہم ستمبر کے وسط سے اب تک یہ تعداد 10 سے 14 ہزار کے درمیان رہی۔

ناقابل قبول شرح اموات

ٹیڈروس نے کہا کہ ''اب جبکہ ہمارے پاس اس بیماری کی روک تھام کے ذرائع موجود ہیں تو دنیا کے لیے اموات کی یہ تعداد ناقابل قبول ہے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''گزشتہ ہفتے دنیا بھر میں کووڈ۔19 سے 11,500 افراد کی موت ہوئی تاہم ''چین میں کووڈ سے متعلق اموات کی درست تعداد سامنے نہ آںے کے باعث یہ تعداد تقریباً یقینی طور پر اصل سے کم ہے۔''

ممالک پر یہ زور بھی دیا گیاہے  کہ وہ اس بارے میں مزید بہتر معلومات مہیا کریں کہ اس بیماری سے کون لوگ مر رہے ہیں۔ فی الوقت 194 میں سے صرف 53 ممالک نے اس بارے میں ایسی معلومات مہیا کی ہیں جن میں متاثرین کی عمر اور جنس بھی بتائی گئی ہے۔

زیادہ تر اموات ایسے افراد کی ہیں جن کا شمار طبی خطرات کی زد پر موجود لوگوں میں ہوتا ہے۔ 2022 کے آخری چھ مہینوں میں کووڈ۔19 سے ہونے والی تمام معلوم اموات میں 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کا تناسب تقریباً 90 فیصد تھا۔

شام کے شہر رقہ میں ایک خاتون اپنے بچوں کے لیے دستوں اور ہیضے کے لیے ادویات وصول کر رہی ہے۔
© UNICEF/Delil Souleiman
شام کے شہر رقہ میں ایک خاتون اپنے بچوں کے لیے دستوں اور ہیضے کے لیے ادویات وصول کر رہی ہے۔

وسیع پیمانے پر ہیضے کی وباء

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے اپنی بریفنگ کا آغاز یوگنڈا میں ایبولا کی وبا کے خاتمے پر خوشی کے اظہار سے کیا۔

انہوں نے اس ہفتے ترکیہ سے سرحد پار شمال مغربی شام میں امداد کی فراہمی میں مزید چھ ماہ کی توسیع کے لیے سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم بھی کیا۔

شام، ہیٹی اور ملاوی ہیضے کی تباہ کن وباؤں سے نبرد آزما ہیں جو ان ممالک میں ناصرف وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں بلکہ معمول سے کہیں زیادہ مہلک بھی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ ''اگرچہ ہم نے پہلے بھی ہیضے کی بڑی وبائیں دیکھی ہیں لیکن ہم نے بیک وقت اتنی بڑی تعداد میں وباؤں کا مشاہدہ کبھی نہیں کیا۔

طوفان، سیلاب اور خشک سالی جیسے موسمیاتی واقعات ان میں بہت سی وباؤں میں ایک مشترک قدر ہیں۔''

'چین سے معلومات درکار'

ڈبلیو ایچ او چین سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں کووڈ۔19 کے پھیلاؤ میں اضافے سے متعلق مزید معلومات مہیا کرے۔

اقوام متحدہ کا ادارہ اس حوالے سے کئی اہم معلومات کی کمی دور کرنے کے لیے حکام کے ساتھ کام کر رہا ہے جن میں وائرس میں عبوری تغیر کو سمجھنا، ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں کمی بیشی سے متعلق مفصل معلومات، وائرس کی ترتیب اور شہری و دیہی علاقوں میں اس بیماری سے ہونے والے جانی نقصان میں فرق جیسے معاملات شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیک ریان کا کہنا ہے کہ ''ڈبلیو ایچ او اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ چین میں ہونے والی اموات کی بڑی تعداد سامنے نہیں لائی گئی اور یہ معاملہ ناصرف اس حوالے سے استعمال کی جانے والی تعریفات بلکہ ڈاکٹروں اور صحت عامہ کے نظام میں اطلاعات دینے والوں سے متعلق بھی ہے جن کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مریضوں کے بارے میں مکمل معلومات مہیا کریں۔''

انہوں نے انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں مخصوص بستروں کی فراہمی اور مریضوں کو بیماری کے ابتدائی عرصہ میں ہی ترجیحی طور پر ویکسین دینے جیسے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے چین کی کوششوں کو سراہا۔

ڈاکٹر ریان نے کہا کہ ''بیماری کی اطلاع دینے کے لیے کووڈ نمونے کے بجائے کووڈ انفیکشن کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس سے مزید معلومات مہیا کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور ڈبلیو ایچ او کو چین میں اس بیماری کے پھیلاؤ کے حوالے سے حقیقی صورتحال جاننے میں مدد ملے گی۔

ایک کارکن شنگھائی میں فٹ پاتھوں کو سپرے کر کے جراثیموں سے پاک کر رہا ہے۔
© Unsplash/Sam Balye
ایک کارکن شنگھائی میں فٹ پاتھوں کو سپرے کر کے جراثیموں سے پاک کر رہا ہے۔

'کووڈ کا دیرینہ بوجھ'

دنیا بھر میں کووڈ۔19 کے متاثرین کی صحت پر پڑنے والے بوجھ کو بہتر طور سے سمجھنے کے لیے اب بھی مزید تحقیق درکار ہے۔

اگرچہ بہت سے لوگ بیماری سے صحت یاب ہو جاتے ہیں تاہم بعض مریضوں کے مختلف جسمانی اعضا میں اس کے اثرات طویل عرصۃ تک قائم رہتے ہیں جس سے 'طویل کووڈ' کے نام سے معروف طبی صورتحال جنم لیتی ہے۔

دل، دماغ اور پھیپھڑوں کی صحت کے بارے میں مختلف اقسام کے طبی انتظامات کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کے تمام شعبوں کے ماہرین دنیا بھر میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

کووڈ۔19 سے متعلق ادارے کے تکنیکی شعبے کی سربراہ ڈاکٹر ماریا وان کیرکوو کا کہنا ہے کہ ''ہمارا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ کووڈ۔19 کے بعد کی صورتحال کی مخصوص پہچان ہو جس میں اسے بیان کیا جا سکے اور اس کا تجزیہ ہو سکے۔''

ڈبلیو ایچ او پہلے ہی طویل کووڈ کی مفصل تعریف شائع کر چکا ہے جسے بچوں کو تحفظ دینے کے لیے منظور کر لیا گیا ہے لیکن ہمیں پہچان، تحقیق اور بحالی سمیت اس حوالے سے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔''

درون خانہ ماسک پہننے کی ضرورت

ڈبلیو ایچ او نے ہر جگہ کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ پرہجوم کمروں یا ایسی جگہوں پر ماسک پہنے رہیں جہاں ہوا کا گزر بہت کم ہو یا اس کے بارے میں علم نہ ہو۔

ڈاکٹر وان کیرکوو نے واضح کیا کہ کورونا وائرس کی منتقلی کا انحصار لوگوں کے درمیان فاصلے، ترتیب، ہوا کے گزر کے انتظام، کسی مخصوص جگہ پر گزارے گئے وقت اور اس بیماری کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''اس حوالے سے متعدد دیگر عوامل بھی اہم ہیں تاہم چہرے پر ماسک پہننا ایسے اقدامات میں سے ایک ہے جس پر ہم درون خانہ عمل کرنے کی سفارش کرتے ہیں جب آپ کے پاس ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔

یہ ان سفارشات میں سے ایک ہے جو ہم پیش کر رہے ہیں اور ہم درست طرح کے تناظر میں اس سے مخصوص انداز میں کام لینے کے لیے حکومتوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔''