انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بنگلہ دیش: ملازمتی کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاجی طلباء کی ہلاکتوں پر تشویش

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کا ایک بازار۔
Austin Curtis/Unsplash
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کا ایک بازار۔

بنگلہ دیش: ملازمتی کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاجی طلباء کی ہلاکتوں پر تشویش

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے بنگلہ دیش میں طلبہ کے احتجاج میں ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ داروں کا محاسبہ کرنے اور مظاہرین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے پر زور دیا ہے۔

ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ مظاہرین پر حملے ہولناک اور ناقابل قبول ہیں جن کی غیرجانبدارانہ، فوری اور جامع تحقیقات ہونی چاہئیں اور لوگوں کو ہلاک و زخمی کرنے کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

Tweet URL

انہوں نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے کام لیں اور سکیورٹی فورسز یقینی بنائیں کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین میں مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔

پرتشدد احتجاج اور ہلاکتیں

بنگلہ دیش میں کئی روز سے یونیورسٹیوں کے طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جو پرتشدد صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس سسٹم کے تحت ایک تہائی ملازمتیں 1971 میں پاکستان سے آزادی کے حصول کی جنگ لڑنے والے لوگوں کی اولادوں کو دی جاتی ہیں۔ 2018 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ نظام ختم کر دیا گیا تھا لیکن رواں مہینے کے آغاز میں اسے دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات میں اب تک کم از کم 105 اموات ہو چکی ہیںاور ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جمعرات کو مشتعل مظاہرین نے ملک کے سرکاری ٹیلی ویژن کے دفتر کو آگ لگا دی تھی۔

پولیس اور مظاہرین کی جھڑپوں میں تقریباً ایک ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ حکام نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے جبکہ یونیورسٹیوں کو بھی نامعلوم مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ کھولنے کا مطالبہ

ہائی کمشنر نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے نیم فوجی پولیس جیسا کہ بارڈر گارڈ بنگلہ دیش اور ریپڈ ایکشن بٹالین کی تعیناتی پر بھی تشویش ظاہر کی ہے جن پر ماضی میں بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔

ہائی کمشنر نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ پرامن مظاہرے کرنے والے طلبہ کا تحفظ اور سلامتی یقینی بنانے کے لیے تمام ضرورت اقدامات اٹھائے اور اجتماعی و اظہار کی آزادی کا حق یقینی بنائے تاکہ تمام لوگ زندگی اور جسمانی سلامتی کے خوف سے بے نیاز ہو کر اپنی بات کر سکیں۔

ملک کے سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوان آبادی کے ساتھ بات چیت کے ذریعے موجودہ مسائل کا حل تلاش کریں اور ملکی تعمیر و ترقی پر توجہ دیں۔ بات چیت ہی مسائل کے حل اور آگے بڑھنے کا بہترین اور واحد راستہ ہے۔

وولکر ترک نے حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کو بند کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بحرانی حالات میں اظہار اور اطلاعات کی جستجو، وصولی اور منتقلی کی آزادی غیرمتناسب طور سے محدود ہو جائے گی۔ انہوں نے حکام سےکہا ہے کہ وہ انٹرنیٹ تک رسائی بلاتاخیر بحال کریں۔