انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بنگلہ دیش سے احتجاجی طلباء پر کریک ڈاؤن کی تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ

بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ۔
© UNICEF/Zhantu Chakma
بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ۔

بنگلہ دیش سے احتجاجی طلباء پر کریک ڈاؤن کی تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے بنگلہ دیش کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ گزشتہ ہفتے مظاہرین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں تفصیلی اطلاعات فراہم کرے تاکہ نفاذ قانون کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی ضوابط کے تابع لایا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے حامی متعدد گروہوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات ہیں اور حکومت نے متاثرین کو تحفظ دینے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ عوامی اعتماد کی بحالی اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول تشکیل دینے کی غرض سے نفاذ قانون کے اداروں کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین و ضوابط کے مطابق کام کرنا ہو گا۔

Tweet URL

وولکر ترک نے بنگلہ دیش کی حکومت سے انٹرنیٹ بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو گزشتہ جمعرات کو بند کر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں اور ان سے اظہار، پرامن اجتماع، میل جول، نقل و حرکت، صحت اور تعلیم کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ایسے اقدامات سے نفاذ قانون کے اداروں کے افعال پر نظر رکھنا ممکن نہیں رہے گا اور انہیں غیرقانونی کارروائیوں پر کھلی چھوٹ ملنے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

ہائی کمشنر نے سیاست دانوں سے کہا ہے کہ وہ ایسے بیانات یا اقدامات سے پرہیز کریں جو تشدد کی ترغیب کے مترادف ہوں یا ان سے حکومتی اقدامات کے مخالفین پر مزید کریک ڈاؤن کا خطرہ ہو۔

پرتشدد احتجاج اور ہلاکتیں

بنگلہ دیش میں گزشتہ کئی ہفتے تک یونیورسٹیوں کے طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔ اس سسٹم کے تحت ایک تہائی ملازمتیں 1971 میں پاکستان سے آزادی کے حصول کی جنگ لڑنے والے لوگوں کی اولادوں کو دی جاتی تھیں۔ 2018 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ نظام ختم کر دیا گیا تھا لیکن رواں مہینے کے آغاز میں اسے دوبارہ بحال کیا گیا۔

طلبہ کے احتجاج نے بتدریج پرتشدد صورت اختیار کر لی جس کے بعد حکام نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی جو تاحال بحال نہیں ہوئی جبکہ یونیورسٹیوں کو بھی نامعلوم مدت کے لیے بند رکھا گیا ہے۔

چند روز قبل بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے مخصوص کوٹے میں 13 فیصد کمی کے حق میں فیصلہ دیا جسے حکومت کی جانب سے تسلیم کر لیا گیا ہے اور اب حالات قدرے معمول پر آ چکے ہیں۔

انسانی حقوق کے ماہرین کو تشویش

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی بنگہ دیش کی حکومت سے احتجاج کرنے والوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن فوری روکنے کے لیے کہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کے رہنماؤں، سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں پر حملے، انہیں دھمکیاں دینا اور حکام سمیت حکومت کے حامی گروہوں کی جانب سے ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں انتہائی پریشان کن ہیں۔ 

تشدد کی تحقیقات کا مطالبہ

اطلاعات کے مطابق مظاہروں میں پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 170 افراد ہلاک ہوئے جبکہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس دوران کم از کم دو صحافیوں کی بھی ہلاکت ہوئی اور متعدد زخمی ہوئے۔ حکام کی جانب سے صحافیوں کو احتجاج کے بارے میں اطلاعات دینے کی پاداش میں دھمکائے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے واقعات کی بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق فوری، مفصل، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس ضمن میں احتساب کے عمل کو قابل اعتبار بنائیں جبکہ اقوام متحدہ اس معاملے میں اسے مدد دینے کو تیار ہے۔

انہوں نے حکام سےکہا ہے کہ وہ تمام پرامن مظاہرین کو فوری رہا کریں اور پرتشدد کارروائیوں کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کو منصفانہ قانونی کارروائی کی ضمانت مہیا کریں۔

عدالتی فیصلے کی ستائش

ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک مکمل رسائی بحال کرے اور مقامی و غیرملکی ذرائع ابلاغ کو حملوں، دھمکیوں یا دباؤ کے خوف کے بغیر ملکی صورتحال کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کی اجازت دے۔ ریاست لوگوں کا اطلاعات کے حصول کا حق برقرار رکھے اور گرفتار لوگوں، جبراً گمشدہ کیے جانے والوں، ہلاک ہونے والوں یا حقوق کی دیگر پامالیوں کا سامنا کرنے والوں کے بارے میں شفاف طور سے معلومات فراہم کی جائیں۔

ان کا کہنا ہےکہ عدالتوں کی جانب سے متنازع کوٹے میں کمی کا فیصلہ درست سمت میں اہم قدم تھا جبکہ حکومت کو صورتحال کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تشدد کے معاملے میں قابل بھروسہ تحقیقات اور احتساب کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ اس پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے۔

ماہرین اس معاملے میں بنگلہ دیش کی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

ماہرین و خصوصی اطلاع کار

غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔