غزہ: جنگ میں لاپتہ بیٹے کی تلاش میں سرگرداں باپ کی کہانی
غزہ میں ان دنوں بے گھر لوگوں کی خیمہ بستیوں سمیت آباد جگہوں پر لاپتہ بچوں کی تلاش سے متعلق اشتہارات دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو نو ماہ سے جاری جنگ کے دوران اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہیں اور ان کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
عبداللہ ابو القمصان کا کمسن بیٹا فواد اکتوبر 2023 میں شمالی غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیل کی بمباری میں زخمی ہونے کے بعد لاپتہ ہو گیا تھا۔ وہ اس کی تلاش میں روزانہ اشتہارات لے کر اس امید پر جا بجا چسپاں کرتے ہیں کہ شاید کوئی اسے ان تک پہنچا دے۔
تلاش اور امید
ابو القمصان نے غزہ میں یو این نیوز کے نمائندے زید طالب کو بتایا کہ وہ 31 اکتوبر کو جبالیہ کیمپ میں اپنے رشتہ داروں کے گھر میں موجود تھے جب اسرائیل نے وہاں فضائی حملہ کیا۔ اس حملے میں ان کے دونوں والدین ہلاک ہو گئے جبکہ فواد نصف گھنٹے تک ملبے تلے دبا رہا یہاں تک کہ امدادی کارکنوں نے ان لوگوں کو وہاں سے نکال لیا۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا ہوش و حواس میں تھا اور انہوں نے اسے سینے سے لگا رکھا تھا۔ بعدازاں اسے علاج کے لیے کسی طبی مرکز میں لے جایا گیا تاہم وہ اس مرکز کا اتا پتا نہیں جانتے تھے۔
چند روز کے بعد بھی انہیں بیٹے کی کوئی خبر نہ ملی تو انہوں نے اسے ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں جا کر بھی تلاش کیا۔ اس دوران انہیں الشفا ہسپتال کے ریکارڈ میں اپنے بچے سے ملتے جلتے مریض کی تفصیلات معلوم ہوئیں اور انہیں بتایا گیا کہ ایک نامعلوم بچے کو علاج کے لیے وہاں لایا گیا تھا جسے معمولی زخم آئے تھے۔
تاہم، ابو القمصان کو آج تک اپنا بچہ نہیں مل سکا اور انہیں کوئی اندازہ نہیں کہ وہ کس کے پاس ہو گا۔
انہوں نے بیٹے کی تلاش کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیا اور آخری چارے کے طور پر اس کی تصویر پر مبنی اشتہار بے گھر لوگوں کے خیموں میں اور سڑکوں پر تقسیم کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نو ماہ کی تلاش کے دوران انہیں بہت سے ایسے خاندان ملے جن کے بچے بھی فواد کی طرح لاپتہ تھے اور ان میں کئی لوگوں کو کہیں زیادہ مشکل حالات کا سامنا تھا۔
17 ہزار بچے لاپتہ
غزہ میں بے گھر لوگوں کی خیمہ بستیوں میں صرف فواد کی تصویر والے اشتہارات ہی دکھائی نہیں دیتے۔ یو این نیوز کو بہت سی جگہوں پر اسی جیسے دیگر اشتہار بھی نظر آئے ہیں جن میں ایسے بچوں کی اطلاع دینے کو کہا گیا ہے جو جنگ اور نقل مکانی کے دوران والدین اور سرپرستوں سے بچھڑ چکے ہیں۔
وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹ بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں لاپتہ بچوں کی اطلاع دینے کو کہا گیا ہوتا ہے۔ ان میں ایسے بچے بھی شامل ہیں جو پناہ گزینوں کی بستیوں میں اپنے خیمے تک پہنچنے کی کوشش میں راستہ بھول جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کا اندازہ ہے کہ اس وقت غزہ میں بے سہارا یا اپنے والدین سے بچھڑ جانے والے بچوں کی تعداد کم از کم 17 ہزار ہے۔