انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تصادموں میں پھنسے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہتر اقدامات کا مطالبہ

یوکرین کی جنگ نے بچوں اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں کو ایک سال سے معطل کر رکھا ہے۔
© UNICEF/Aleksey Filippov
یوکرین کی جنگ نے بچوں اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں کو ایک سال سے معطل کر رکھا ہے۔

تصادموں میں پھنسے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہتر اقدامات کا مطالبہ

امن اور سلامتی

جنگ سے متاثرہ لڑکوں اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ماہر نے سوموار کو سلامتی کونسل میں ایک بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ایسے بچوں کے حقوق کی پامالی کو روکنے کی برمحل اور ہنگامی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔

ورجینیا گامبا بچوں اور مسلح تنازعات سے متعلق سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ ہیں جو ان دنوں اس موضوع پر اپنی تازہ ترین رپورٹ تیار کر رہی ہیں۔

Tweet URL

انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ اب تک اکٹھی کی جانے والی معلومات سے ایسے رحجانات سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کے حقوق کی شدید پامالیاں جاری ہیں۔

اس حوالے سے تازہ ترین اطلاعات 2021 میں جمع کی گئیں جب بچوں کے حقوق کی سنگین پامالی کے تقریباً 24,000 واقعات سامنے آئے۔

ایسے بیشتر واقعات میں بچے ہلاک یا معذور ہوئے اور انہیں جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں امداد تک رسائی نہ دینے اور اغوا کیے جانے کے واقعات آتے ہیں۔  

گوناگوں خطرات

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایسے واقعات کی تفصیل جمع کرنا اور ان کی تصدیق کرنا اس کام میں پہلا اہم قدم ہوتا ہے تاہم بچوں کو تحفظ دینے اور جنگ شروع ہونے کے بعد ان کے حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لیے پہلے سے موجود خدشات اور کمزوریوں کو سمجھنا اور ان کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہو گا۔

سب سے زیادہ غیرمحفوظ بچے وہ ہیں جنہیں لاحق دیگر خطرات کے ساتھ تعلیم یا روزگار کے مواقع تک رسائی نہیں ہے یا وہ غربت اور بے گھری کی زندگی گزار رہے ہیں یا جسمانی طور پر معذور ہیں۔

انہوں نے کونسل کو بتایا کہ ''اس طرح یہ بچے جنگی مقاصد کے لیے بھرتی اور پھر مسلح گروہوں کی جانب سے دوبارہ بھرتی نیز جنگ کے دوران صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد جیسے دیگر خطرات کا آسان شکار ہوتے ہیں۔

اسی طرح جب ہم بچوں کو سرحد پار لے جائے جانے اور جنگی حالات میں یا ان کے ذریعے سمگل کیے جانے کی تفصیلات جمع کرتے ہیں تو اگر ہم ان بچوں کو درپیش خصوصی خطرات کا کھوج نہ لگائیں اور ان کے خلاف اقدامات نہ کریں تو ایسے حالات کا پوری طرح اندازہ نہیں کر سکیں گے۔''

مزید اقدامات کی ضرورت

ورجینیا گامبا نے اس حوالے سے اپنے دفتر کے بعض موثر ذرائع اور اقدامات کو واضح کیا جن میں جنگ فریقین سے بچوں کے بہتر تحفظ کے منصوبوں پر عملدرآمد کرانا اور متعلقہ حکومتوں کے ساتھ مشترکہ منصوبہ ہائے عمل تیار کرنا بھی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ہمیں مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے حقوق کی پامالی کو روکنے کے لیے ناصرف قومی بلکہ ذیلی علاقائی اور علاقائی سطح کی حکمت عملی یا مشترکہ طریقہ ہائے کار وضع کرنے کا موقع موجود ہے۔ ایسی حکومتوں کو اس حوالے سے موزوں صلاحیتیں فراہم کی جانا چاہئیں جو اس کام میں شمولیت پر رضامند ہوں۔''

انہوں نے کہا کہ ان کے دفتر نے ڈاکٹر نجات مالا مجید کی سربراہی میں بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام سے متعلق سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ کے دفتر کے ساتھ شراکت کو مضبوط بنایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ہم ان دو لائحہ عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے مابین لازمی روابط کو بہتر طور سے سمجھنے اور خارجی طور پر بات چیت کا عزم رکھتے ہں جس میں بچوں اور ان کے خیالات کو مرکزی اہمیت حاصل ہو۔ اس میں بروقت انتباہ اور بچوں کے حقوق کی پامالی اور ان کے خلاف بدسلوکی کے واقعات کے مابین تعلق بھی شامل ہے ۔''

'جنگیں بحرانوں کو بڑھاتی ہیں'

ڈاکٹر مجید نے کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ جنگیں عام طور پر اپنے ساتھ دوسرے بحران جیسا کہ موسمیاتی ہنگامی صورتحال اور مالیاتی مسائل بھی لاتی ہیں۔

جنگوں کے باعث پہلے سے موجود سماجی عدم مساوات، غربت، بھوک اور تفریق بھی بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں بچوں پر تشدد کے اثرات مزید شدت اختیار کر جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے ''تشدد کے تسلسل'' پر قابو پانے کے لیے متعدد ٹھوس اقدامات بھی پیش کیے جن کا آغاز جنگ میں پھنسے بچوں کے بارے میں جاننے، ان کی نشاندہی کرنے اور ان جگہوں کا پتا چلانے سے ہوتا ہے جہاں وہ موجود ہوتے ہیں۔

امداد تک یقینی رسائی

انہوں نے مزید کہا کہ ''تمام بچوں کی انسانی امداد اور تعاون تک رسائی یقینی بنانا ضروری ہے جس میں انتہائی غیرمحفوظ بچوں پر خصوصی توجہ دی جانا چاہیے۔ اس طرح بچوں، خاندانوں اور معاشروں کو جنگ کے نقصان دہ اثرات کے سامنے مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر نجات مجید نے اغوا، سمگلنگ یا گمشدگی کے نتیجے میں بے گھری پر مجبور ہونے والے بچوں کی حفاظت کے لیے سرحد پار تعاون مزید بہتر بنانے کے لیے بھی کہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اس تعاون کی بدولت جرائم کی تفتیش اور باہمی قانونی معاونت کی صلاحیتوں کو بہتر بنا کر بچوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں اور انسانی سمگلروں سے بہتر طور پر بازپرس کرنے میں مدد ملے گی۔''  

'بچوں کی بات سنیں'

اقوام متحدہ کی ماہر نے زور دیا کہ ''بچوں کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات بچوں کے تجربات کی روشنی میں اٹھائے جانے چاہئیں کیونکہ وہ بہتر طور سے جانتے ہیں کہ نظام ان کی حفاظت میں کہاں سب سے زیادہ ناکام رہے ہیں۔''

ڈاکٹر مجید نے بتایا کہ جنگ سے متاثرہ بچے اپنے ہمسروں کی مدد کرنے، امن اور مفاہمت کو فروغ دینے اور بنیاد پرستی کی روک تھام کے اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''شام اور یوکرین میں لڑکیوں نے فروغ امن کے لیے دنیا کے ساتھ اپنی داستانوں کا تبادلہ کیا ہے۔ افغانستان میں انہوں ںے فن اور لکھائی کے ذریعے امن کو فروغ دیا ہے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں نوجوان رہنماؤں نے قیام امن کے کام میں متحرک کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایسے اقدامات کی محض چند مثالیں ہیں۔''