انسانی کہانیاں عالمی تناظر

جنگوں میں پھنسے بچوں کے تحفظ کے لیے پختہ عزم کی ضرورت

لیبیا کے شہر سرت میں بمباری کا نشانہ بنے والی ایک عمارت کے پاس سے ایک لڑکا بھاگتے ہوئے گزر رہا ہے۔
© UNICEF/Giovanni Diffidenti
لیبیا کے شہر سرت میں بمباری کا نشانہ بنے والی ایک عمارت کے پاس سے ایک لڑکا بھاگتے ہوئے گزر رہا ہے۔

جنگوں میں پھنسے بچوں کے تحفظ کے لیے پختہ عزم کی ضرورت

امن اور سلامتی

سلامتی کونسل کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کے حقوق کی پامالیوں کے 27,180 واقعات سامنے آئے جو کہ اب تک کسی ایک سال میں اقوام متحدہ کی جانب سے ایسے تصدیق شدہ واقعات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

مسلح تنازعات میں بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ ورجینیا گامبا نے اس موضوع پر اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے موت، جنگی مقاصد کے لیے بھرتی، جنسی زیادتی اور دیگر خطرات کی زد پر موجود لڑکوں اور لڑکیوں کے تحفظ کے لئے دلیرانہ اور پُرعزم اقدام کرنے کی اپیل کی ہے۔

Tweet URL

اس رپورٹ میں دنیا بھر کے پانچ خِطوں میں 26 جنگی حالات کا جائزہ لیا گیا ہے جو بذات خود ایک سال میں ایسے واقعات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 

رپورٹ میں ایتھپویا، موزمبیق اور یوکرین کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جہاں کے حالات پہلی مرتبہ اس رپورٹ کا حصہ بنے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں ہیٹی اور نائیجر کی صورتحال بھی بیان کی گئی ہے جہاں بچوں کے حقوق کی پامالیوں کی تفصیلات آئندہ برس جاری ہونے والی رپورٹ میں مندرج ہوں گی۔ 

ہلاکتیں، بھرتیاں اور اغوا 

اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ 2022 میں جنگوں کے دوران 18,890 بچوں کے حقوق کی سنگین پامالیاں ہوئیں۔ ان میں تقریباً 8,630 بچے ہلاک یا زخمی ہوئے، 7,622 کو جنگی مقاصد کے لیے بھرتی اور استعمال کیا گیا جبکہ 3,985 بچوں کو اغوا کیا گیا۔ 

ورجینیا گامبا نے کہا کہ بچوں کے حقوق کی یہ تین پامالیاں ایسی ہیں جن کی اعلیٰ ترین سطح پر تصدیق ہوئی ہے اور گزشتہ برس ایسے تمام واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔ 

انہوں نے کہا کہ بچوں کو فضائی حملوں میں، دھماکہ خیز ہتھیاروں اور براہ راست فائرنگ کے ذریعے، فائرنگ کے تبادلے میں یا براہ راست ہونے والے حملوں میں ہلاک یا زخمی کیا گیا۔ بہت سے واقعات میں یہ بچے جنگ کے بعد باقی رہ جانے والے گولہ بارود کا نشانہ بنے۔ 

زیادتی اور جنسی غلامی 

مزید برآں، 1,165 بچوں کو جنسی زیادتی، اجتماعی جنسی زیادتی، جبری شادی یا جنسی غلامی یا جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی تھی۔ ایسے بعض واقعات اس قدر شدید تھے کہ متاثرین ان کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔ 

ورجینیا گامبا نے واضح کیا کہ یہ بات یاد رکھی جائے کہ یہ تعداد ان بچوں کی ہے جن کی انفرادی داستانیں بیان نہیں کی گئیں۔ 

انہوں نے سوڈان میں تین لڑکیوں کے ساتھ پانچ روز تک اجتماعی زیادتی، میانمار میں 14 سالہ لڑکی کے اغوا اور اسے زندہ جلائے جانے اور افغانستان کے ایک سکول میں مقامی ساختہ دھماکہ خیز آلے کے ذریعے لڑکوں کی ہلاکت جیسے واقعات کا حوالہ دیا۔

یوگنڈا میں مقیم جنوبی سوڈان کے پناہ گزینوں کے بچے سکول سے اپنے کیمپ کیطرف جاتے ہوئے۔
© UNICEF/Jiro Ose
یوگنڈا میں مقیم جنوبی سوڈان کے پناہ گزینوں کے بچے سکول سے اپنے کیمپ کیطرف جاتے ہوئے۔

ہندسے نہیں چہرے ہیں

انہوں ںے کہا کہ اسی لیے ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ اس تعداد کے پیچھے دنیا بھر میں مسلح تشدد سے متاثرہ بچوں کے چہرے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کے خلاف مسلح تنازعات کی غارت گری کو روکنے اور انہیں تحفظ دینے کے لئے مزید اقدامات کرنا ہیں۔ 

ورجینیا گامبا نے یہ بھی بتایا کہ بعض متاثرین ایسے ہیں جنہیں تحفظ مہیا کرنے کے بجائے ان کے حالات کی بنا پر سزا دی گئی۔ گزشتہ برس 2,496 بچوں کو جنگی فریقین کے ساتھ حقیقی یا مبینہ تعلق کی بنا پر ان کی آزادی سے محروم کیا گیا۔ 

انہوں نے بتایا کہ ایسے بچوں کو حکام کے ہاتھوں خاص طور پر عدم تحفظ کا سامنا رہا اور دوران حراست مارپیٹ اور جنسی تشدد کے ذریعے ان کے حقوق مزید پامال کیے گئے۔ بعض واقعات میں انہیں موت کی سزا بھی دی گئی۔ 

سکولوں اور ہسپتالوں پر حملے 

رپورٹ میں 2022 کے دوران 1,163 سکولوں اور تقریباً 650 ہسپتالوں پر مصدقہ حملوں کا انکشاف بھی کیا گیا ہے۔ یہ واقعات اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 112 فیصد زیادہ ہیں۔ ایسے نصف حملے حکومتی افواج کی جانب سے کیے گئے۔ 

انہوں نے بتایا کہ سکولوں اور ہسپتالوں کا عسکری مقاصد کے لیے استعمال بھی تشویش کا باعث ہے اور گزشتہ برس ایسے واقعات میں مصدقہ طور پر 60 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ ایسے واقعات کا ارتکاب کرنے والوں میں ممالک کی مسلح افواج اور مسلح گروہ دونوں شامل ہیں۔ 

امدادی کارروائیاں حملوں کی زد میں 

اس دوران امدادی کارکن اور ان کی مہیا کردہ ضروری امداد پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ امداد جنگ سے متاثرہ بچوں اور آبادیوں کے لئیے عموماً "واحد امید" ہوتی ہے۔ 

اقوام متحدہ نے گزشتہ برس بچوں کو امداد تک رسائی سے روکے جانے کے 3,930 واقعات کی تصدیق کی ہے۔ مسلح تنازعات میں امدادی کارکنوں کی ہلاکتوں، ان پر حملوں اور انہیں اغوا کیے جانے کے واقعات بھی پیش آئے جبکہ امدادی سامان کو لوٹا اور امدادی اداروں کے اثاثوں اور اہم تنصیبات کو تباہ کیا گیا۔