انسانی کہانیاں عالمی تناظر
دھوکہ دہی پر مجبور کیے جانے والے جب مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پاتے تو انہیں ایذا رسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

فلپائن: جرائم پیشہ گروہوں کے عقوبت خانے اور گانے بجانے کے مراکز ساتھ ساتھ

UNODC/Laura Gil
دھوکہ دہی پر مجبور کیے جانے والے جب مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پاتے تو انہیں ایذا رسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

فلپائن: جرائم پیشہ گروہوں کے عقوبت خانے اور گانے بجانے کے مراکز ساتھ ساتھ

رپورٹ: ڈینئل ڈکنسن اور جیسیکا جیجی (فلپائن)
جرائم کی روک تھام اور قانون

جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہ لوگوں کو جرم پر مجبور کر کے یا خطے بھر میں پھیلی'دھوکہ فارم' جیسی جگہوں پر ان کے جنسی استحصال کے ذریعے انسانی سمگلنگ میں اضافہ کر رہے ہیں۔

اندازے کے مطابق صرف فلپائن میں ہی ایسے تقریباً 400 مجرمانہ کاروبار چل رہے ہیں۔ یہ عموماً ہمیشہ چوری چھپے اور آن لائن جوئے کی لائسنس یافتہ اور قانونی کارروائیوں کے متوازی غیرقانونی طور پر کام کرتے ہیں۔

دھوکہ دہی کے ایسے فارم دنیا بھر میں لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسے جرم کی قدرے نئی صورت کہا جا سکتا ہے جسے کووڈ۔19 وبا کے دوران بڑے پیمانے پر فروغ حاصل ہوا۔

فلپائن میں منظم جرائم کے خلاف صدارتی کمیشن (پی اے او سی سی) نے حالیہ برسوں میں ایسے درجنوں مجرمانہ گروہوں اور ان کی کارروائیوں کا قلع قمع کیا ہے۔ کمیشن اس معاملے میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے اشتراک سے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے طریقے وضع کر رہا ہے تاکہ فلپائن، کمبوڈیا، لاؤ اور میانمار سمیت جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں یہ دھوکہ فارم ختم کیے جا سکیں۔

منیلا کے شمال میں واقع دھوکہ دہی کے ایسے مقامات پر سینکڑوں کارکنوں سے کام لیا جاتا ہے۔
UN News/Daniel Dickinson
منیلا کے شمال میں واقع دھوکہ دہی کے ایسے مقامات پر سینکڑوں کارکنوں سے کام لیا جاتا ہے۔

یو این نیوز کی ٹیم نے فلپائن کے دارالحکومت منیلا اور شمالی علاقے بامبان میں ایسے دو فارم دیکھے ہیں جنہیں کمیشن نے چھاپے مار کر قبضے میں لے لیا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے دو افراد سے بات چیت کی۔ ان میں ایک فلپائن سے تعلق رکھنے والی سوزن٭ اور دوسرے ملائشیا کے ڈیلن٭ ہیں جن سے ان جگہوں پر جبراً جرائم کروائے جاتے تھے۔ اس موقع پر ڈکنسن نے کمیشن کے عہدیدار ونسٹن کیسیو سے بھی ملاقات کی۔

سوزن نے انہیں بتایا کہ ان کی سوتیلی بہن نے دھوکہ دہی سے انہیں گھر چھوڑنے اور میانمار کا سفر کرنے کی ترغیب دی اور وعدہ کیا کہ انہیں اس کی کمپنی میں مارکیٹنگ کی نوکری مل جائے گی۔ جب وہ وہاں پہنچیں تو انہیں اندازہ ہوا کہ یہ دھوکہ فارم ہے۔ سوتیلی بہن انہیں وہاں چھوڑ کر فرار ہو گئی اور یوں انہیں اس کے ذمے 'قرض' چکانے کے لیے اس فارم پر کام کے لیے مجبور ہونا پڑا۔

وہ بتاتی ہیں کہ یہ کام کرتے ہوئے انہوں نے اپنا جعلی کردار تخلیق کیا جو نیویارک کے علاقے بروکلین میں رہنے والی ایک نوجوان لڑکی کا تھا جو جائیداد اور کاروبار کی مالک تھی۔ فارم کے منتظمین نے انہیں ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ سے تصاویر لے کر دیں تاکہ وہ یہ کردار تخلیق کریں اور انہیں طلاق یافتہ یا اکیلے امریکی مردوں سے رابطہ کرنے اور ان سے رقومات اینٹھنے کو کہا گیا۔ اسے 'پیار کا دھوکہ' بھی کہا جاتا ہے۔

سوزن کہتی ہیں کہ اپنی آن لائن تصاویر میں وہ ہمیشہ خریداری کرتی دکھائی دیتی تھیں لیکن حقیقت میں ان کے لیے اس فارم سے باہر جانا بھی ممکن نہیں تھا اور وہ اس کی عمارت میں مقید ہو کر رہ گئی تھیں۔

انہیں پیغامات میں استعمال کرنے کے لیے تحریریں دی جاتی تھیں اور جب انہیں کہا گیا کہ وہ 'گاہکوں' کے ساتھ اپنی بات چیت کو مزید بہتر بنائیں تو انہوں نے اپنی انگریزی میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ایک گرائمر ایپ کا سہارا لیا۔ جب ان کے رابطے میں آنے والے لوگ ویڈیو کال پر بات کرنا چاہتے تو اس کے لیے ماڈل رکھی گئی تھیں اور انہیں بھی سمگل کر کے فارم پر لایا گیا تھا۔

سوزن کو ’دھوکہ فارم‘ پر میانمار سے سمگل کیا گیا تھا۔
UNODC/Laura Gil
سوزن کو ’دھوکہ فارم‘ پر میانمار سے سمگل کیا گیا تھا۔

ڈیلن نے بتایا کہ بیشتر لوگ ایسی جگہوں کا رخ نہیں کرتے۔ وہاں روزانہ 16 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور اگر کسی کے 'گاہک' ایسے ملک میں رہتے ہوں جہاں وقت کا فرق بہت زیادہ ہو تو کام کا دورانیہ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ جب وہ ایسے فارم پر کام کر رہے تھے تو انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے گاہکوں کو دبئی میں تیل کی تجارت کے (فرضی) معاہدے کے لیے راغب کر کے ان سے رقم بٹوریں۔

ڈیلن نے بتایا کہ وہاں کام کرنے والے ہر فرد کو مخصوص مقدار میں رقم اینٹھنا ہوتی ہے۔ انہیں ہر مہینے ایک لاکھ ڈالر پیدا کرنے کو کہا گیا اور جب وہ ایسا نہ کر پائے تو انہیں مارپیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔

کمیشن کے لیے کام کرنے والے ونسٹن کیسیو بتاتے ہیں کہ انہوں نے بامبان میں دھوکہ دہی کے فارم سے تقریباً 680 لوگوں کو بازیاب کرایا۔ تاہم اس کے منتظمین چھاپے کی اطلاع ملنے پر فرار ہو گئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دھوکہ دہی پر مبنی بہت بڑی کارروائیاں ہیں۔ ان جگہوں پر کام کرنے والے لوگوں کو اپنی مرضی سے واپس جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ فارم چلانے والے لوگ لڑکیوں کو جنسی غلام کے طور پر سمگل کرتے ہیں۔ ایسے ایک فارم میں منتظمین نے 'دی ایکوریم' کے نام سے ایک جگہ بنا رکھی تھی جہاں خواتین کی نمائش کی جاتی اور مرد انہیں جنسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔

ایسے فارم پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ کام کرنے والوں کے لیے رہنے اور کھانے پینے کی جگہوں کے علاوہ حجام کی دکانیں، کلینک، مساج کی سہولت، جوا خانے اور اعلیٰ سطحی منتظمین کے لیے 'وی آئی پی بار' بھی عمارت کے اندر ہی واقع ہوتے ہیں۔

فارم میں انہیں ایسا کمرہ بھی ملا جہاں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ وہاں ہتھکڑیاں بھی موجود تھیں اور دیواروں پر خون کے دھبے تھے جہاں رقم کے حصول کا ہدف پورا نہ کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی تھیں۔

ونسٹن کاسیو ’دھوکہ فارم‘ کی ایک سابقہ باربر شاپ کے پاس کھڑے ہیں۔
UN News/Daniel Dickinson

سوزن کہتی ہیں کہ کئی مواقع پر وہ لوگوں کو تقریباً پھانسنے ہی والی تھیں کہ انہیں یہ سب کچھ اچھا نہ لگا۔ چنانچہ انہوں نے گاہکوں کو خفیہ طور پر آگاہ کر دیا کہ یہ سب دھوکہ ہے۔ جب انہوں نے اپنے منتظم کو بتایا کہ گاہکوں نے انہیں بلاک کر دیا ہے تو اس نے انہیں دھاتی پائپ سے مارا پیٹا۔ ان کے زخم اس قدر شدید تھے کہ انہیں فارم پر واقع کلینک میں لے جانا پڑا۔ تین محافظ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے تاہم وہ اسے یہ نہیں بتا سکتیں تھیں کہ ان کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ فارم کی زندگی میں پہنچنے والی جسمانی و جذباتی تکالیف نے اب بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

ڈیلن بتاتے ہیں کہ انہیں اس کام کی کوئی تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ چونکہ فارم پر رہتے ہوئے انہیں کھانا پینا بھی ہوتا تھا اس لیے یہ رقم قرض کی صورت میں ان کے کھاتے میں جمع ہوتی رہتی تھی اور اس کھانے کے دام بھی بیرونی دنیا سے دو یا تین گنا زیادہ ہوتے تھے۔ جب اس فارم پر کمیشن نے چھاپہ مارا تو تبھی انہیں رہائی نصیب ہوئی۔

ونسٹن کیسیو کا کہنا ہے کہ بعض اوقات اس جرم کے متاثرین اور فارم کے منتظمین کے ساتھ اپنی رضامندی سے کام کرنے والوں کے مابین تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنی مرضی کے خلاف فارم پر جانے کے باوجود چار یا پانچ روز کی تربیت کے بعد اس غیرقانونی سرگرمی کو قبول کر لیتے اور رقم کماتے ہیں۔

اس صورتحال کو محض مشکل قرار دینا کافی نہیں کیونکہ یہ فارم چلانے والے منظم بین الاقوامی جرائم پیشہ نیٹ ورک قانون سے ہمیشہ دو ہاتھ آگے رہتے ہیں۔

عقوبت خانے سے صرف چند گز کے فاصلے پر موج مستی کے لیے ایک وی آئی پی کیریوکی بار قائم ہے۔
UN News/Daniel Dickinson
عقوبت خانے سے صرف چند گز کے فاصلے پر موج مستی کے لیے ایک وی آئی پی کیریوکی بار قائم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے جس پر کوئی ملک اکیلا قابو نہیں پا سکتا۔ یہ ایک منظم جرم ہے۔ پورے جنوب مشرقی ایشیا میں نفاذ قانون کے اداروں کو اس معاملے میں اشتراک و ارتباط کی ضرورت ہے اور 'یو این او ڈی سی' کا کردار اسی لیے اہم ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ ادارہ ممالک کو ایسے جرام کے خلاف اکٹھا کرنے اور انہیں ڈیجیٹل فارنزک تفتیش جیسی مہارتیں مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

سوزن کا کہنا ہے کہ انہیں فارم میں 13 مرتبہ مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ جب ان پر تشدد ہوتا تو وہ دعائیں مانگتی رہتی تھیں۔ انہیں اپنے والدین کو فون کرنے اور ان سے سات ہزار ڈالر منگوانے کو کہا جاتا تھا۔ منتظمین کے بقول یہ وہ رقم تھی جو ان کے علاج پر خرچ ہوئی تھی۔

سوزن کے والدین کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ رقم کا انتظام کرنے کی کوشش نہ کریں جبکہ منتظمین سے ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ چاہیں تو انہیں ہلاک کر دیں۔

وہ کہتی ہیں کہ فارم چلانے والوں کو لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔ انہیں صرف رقم سے سروکار ہوتا ہے۔ تاہم آخر میں انہیں احساس ہو گیا کہ وہ رقم کا انتظام نہیں کر سکتیں اور انہیں فارم پر رکھنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ اسی لیے ایک روز انہیں آزاد کر دیا گیا اور وہ تھائی لینڈ سے ہوتی ہوئی فلپائن پہنچ گئیں۔

لوگوں کو پھانسنے کے لیے ’دھوکہ فارم‘ کی ایک ڈیسک پر سکرپٹ رکھے ہیں۔
UNODC/Laura Gil
لوگوں کو پھانسنے کے لیے ’دھوکہ فارم‘ کی ایک ڈیسک پر سکرپٹ رکھے ہیں۔

سوزن اب منیلا میں 'پی اے او سی سی' کے لیے کام کرتی ہیں اور ڈیلن نے ان مجرموں کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی میں گواہی دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ انہیں امید ہے کہ بالآخر اب وہ اپنے ملک ملائشیا واپس پہنچ جائیں گے۔

٭ فرضی نام