انسانی کہانیاں عالمی تناظر

فلپائن: بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کے خلاف متحرک ’سائبر سپاہی‘

فلپائن کے دارالحکومت منیلا کے ’ریڈ لائٹ‘ ایریا میں رات کے وقت ایک چھابڑی فروش بچہ سڑک کنارے گزر رہا ہے۔
© UNICEF/Joshua Estey
فلپائن کے دارالحکومت منیلا کے ’ریڈ لائٹ‘ ایریا میں رات کے وقت ایک چھابڑی فروش بچہ سڑک کنارے گزر رہا ہے۔

فلپائن: بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کے خلاف متحرک ’سائبر سپاہی‘

جرائم کی روک تھام اور قانون

فلپائن میں قانون نافذ کرنے والے افسر اقوام متحدہ کے غیررسمی تعاون سے اس جذباتی تناؤ پر قابو پا رہے ہیں جو انہیں بچوں کا آن لائن استحصال کرنے والوں کا پیچھا کرنے سے لاحق ہوتا ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک کا شمار ایسی جگہوں میں ہوتا ہے جہاں انٹرنیٹ پر بچوں کا آن لائن استحصال عام ہے اور کووڈ۔19 وبا کے سبب اس میں اضافہ ہو گیا ہے۔

چینگ وینائلز اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے زیراہتمام بچوں کے آن لائن تحفظ سے متعلق اقدامات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدالتی افسروں اور قانونی حکام کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ 

انہوں نے اس مقصد کے لیے کام کرنے والے اپنے جیسے مردوخواتین کا ایک چھوٹا سا غیررسمی نیٹ ورک شروع کیا تھا جو بچوں کا آن لائن استحصال کرنے والوں کو ڈھونڈنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی ویڈیوز اور تصاویر 15 سے 20 ڈالر میں آن لائن فروخت ہو رہی ہیں۔ کووڈ وبا کے دوران آن لائن جنسی بدسلوکی اور استحصال کے واقعات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا کیونکہ اس دوران بہت سے لوگوں کی نوکریاں اور روزگار ختم ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ 'چھوا نہیں تو نقصان نہیں' کا گمراہ کن تصور بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگوں میں بچوں کے خاندان کے ارکان اور رشتہ دار بھی ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بچے کو جسمانی طور پر چھوا نہ گیا ہو تو یہ جنسی بدسلوکی یا استحصال نہیں کہلائے گا۔

یو این او ڈی سی کی چینگ وینائلز۔
UN News/Jessica Jiji
یو این او ڈی سی کی چینگ وینائلز۔

عالمی مسئلہ

فلپائن میں حالیہ دنوں یہ رحجان بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے کے والدین کا کوئی ساتھی یا مرد دوست (بوائے فرینڈ) اپنی تکنیکی مہارت کی وجہ سے نامناسب مواد ڈارک ویب پر جاری کر کے کرپٹو کرنسی کی صورت میں معاوضہ حاصل کرتا ہے۔

جب ایسے والدین سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسے لوگوں کے ہاتھ کیوں دیتے ہیں جو ان کا آن لائن استحصال کرتے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ 'کیا آپ ہمیں بھوکا مرتے دیکھنا چاہتے ہیں؟

وینائلز کا کہنا ہے کہ یہ نہایت دل شکن بات ہے کہ بہت سے بچوں کو اس وقت تک اپنے استحصال کا علم نہیں ہوتا جب تک انہیں جرائم پیشہ عناصر کے چنگل سے چھڑا نہ لیا جائے۔ یہ بچے بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی مدد کر رہے ہیں اور انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کی آن لائن تصاویر اور ویڈیو آئندہ عمر میں ان کا مستقبل برباد کر دیں گی۔ 

وہ کہتی ہیں کہ یہ غربت سے جنم لینے والا صرف فلپائن کا مسئلہ نہیں ہے۔ بچوں سے متعلق آن لائن جنسی مواد کے صارفین عموماً سمندر پار ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک عالمی مسئلہ بھی ہے اور 'یو این او ڈی سی' ایسے ممالک میں کام کر رہا ہے جہاں یہ جنسی مواد خریدا جاتا ہے۔ ادارہ مختلف ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین تعاون کی حوصلہ افزائی بھی کر رہا ہے تاکہ اس بدسلوکی کا خاتمہ ہو سکے۔ اگر اس مواد کے صارفین نہیں ہوں گے تو یہ صنعت قائم نہیں رہ سکے گی۔

اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیٹ کو بچوں کے لیے محفوظ بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
© UNICEF/Joshua Estey
اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیٹ کو بچوں کے لیے محفوظ بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

باہمی تعاون

چینگ وینائلز بتاتی ہیں کہ فلپائن میں سائبر پولیس، قانونی حکام، سائبر جرائم کی کھوج لگانے اور ان کا قلع قمع کرنے والا ادارہ اور عائلی عدالتیں مل کر بچوں کا آن لائن استحصال کرنے والوں کو تلاش کرنے اور اس مسئلے پر قابو پانے میں مصروف ہیں۔ 

یہ مسئلہ متاثرین اور قانون نافذ کرنے والے افسروں اور قانونی حکام سے لے کر وکلا اور عدالتی عملے تک اس پر قابو پانے والوں کے اذہان پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ 

وہ بتاتی ہیں کہ 'یو این او ڈی سی' کی قومی پروگرام افسر کی حیثیت سے ایسے لوگوں کو اس ذہنی اذیت سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ہے جو انہیں دل شکن آن لائن جنسی مواد کے پھیلاؤ سے نمٹتے ہوئے جھیلنا پڑتا ہے۔

اس ضمن میں پہلے وہ واٹس ایپ اور وائبر گروپس میں ایک دوسرے کی خیرخیریت پوچھتے تھے اور اب وہ کافی پیتے یا کھانا کھاتے وقت ایک دوسرے کے مسائل سنتے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وینائلز کے مطابق، وہ اور ان کے ساتھی ایک دوسرے کو فون پر پیغام بھیجتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا کسی خاص مسئلے سے نمٹنے کے لیے خصوصی مہارت کا حامل کوئی فرد بھی گروپ میں موجود ہے۔ اس طرح ازخود ماہرین اور ساتھیوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک بن گیا ہے جس میں شامل لوگ واقعتاً ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔

جنسی استحصال کا شکار بننے والے بچے فلپائن میں ایک پناہ گاہ کے لان میں کھیل رہے ہیں۔
© UNICEF/Joshua Estey
جنسی استحصال کا شکار بننے والے بچے فلپائن میں ایک پناہ گاہ کے لان میں کھیل رہے ہیں۔

محفوظ انٹرنیٹ

وینائلز کے تمام ساتھیوں نے ایک غیرتحریری عہد کر رکھا ہے کہ جب تک اس مسئلے پر خاطرخواہ حد تک قابو نہیں پایا جاتا اس وقت تک کوئی بھی اس گروپ یا نوکری کو نہیں چھوڑے گا۔ ان کے ایک ساتھی نے اپریل میں استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد گروپ چیٹ ایک ہفتہ تک بند رہی۔ تاہم بہت سے معاملات سے نمٹنا تھا، بچوں کا استحصال کرنے والوں کو پکڑنے کے لیے 'پھانسنے' اور تربیتی پروگراموں کے انعقاد جیسا کام ضروری تھا اور اسی لیے سبھی دوبارہ فعال ہو گئے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کوئی بے محل مثالیت ان کے کام کا محرک ہو، ممکن ہے وہ سبھی ایک دوسرے کے جذبے سے تحریک پا رہے ہوں یا محض اس امید پر یہ کام کیے جا رہے ہیں کہ کم از کم وہ اپنے بچوں کو سر اٹھا کر جینے میں مدد دے رہے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو ان کا یہ کام جاری و ساری ہے۔

چینگ وینائلز کہتی ہیں کہ بحیثیت ماں وہ 'یو این او ڈی سی' کے اس مقصد سے تحریک پاتی ہیں کہ بچوں کو کسی نقصان کے خطرے سے بے نیاز ہو کر انٹرنیٹ سے کام لینا چاہیے۔ انہیں یہ فخر بھی ہے کہ ان کے کام کی بدولت بہت سے لوگوں کی تکالیف میں کمی آتی ہے اور وہ انہیں اکٹھا کرتی اور یہ یاد دہانی کراتی ہیں کہ وہ سبھی جو کام کر رہے ہیں اس سے انٹرنیٹ کی دنیا کو قدرے مزید محفوظ بنانے میں مدد ملتی ہے۔