انسانی کہانیاں عالمی تناظر

’فلپائن میں بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف بڑی کارروائی کی ضرورت‘

فلپائن میں 80 فیصد بچوں کو زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں جنسی استحصال کا سامنا رہتا ہے۔
© UNICEF/Josh Estey
فلپائن میں 80 فیصد بچوں کو زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں جنسی استحصال کا سامنا رہتا ہے۔

’فلپائن میں بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف بڑی کارروائی کی ضرورت‘

انسانی حقوق

انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی متعین کردہ ماہر نے کہا ہے کہ اگرچہ فلپائن نے بچوں کی خریدوفروخت اور ان کے جنسی استحصال پر قابو پانے میں کامیابیاں حاصل کی ہیں تاہم انہیں تحفظ دینے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔

بچوں کی خریدوفروخت اور ان کے جنسی استحصال کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ماما فاطمہ سنگھاتا نے فلپائن کے 11 روزہ دورے کے اختتام پر وہاں بنائے جانے والے ایک حالیہ قانون کی ستائش کی ہے جو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اور انٹرنیٹ مہیا کرنے والے اداروں سے نوعمر افراد کے ساتھ ہونے والی جنسی بدسلوکی سے نمٹنے کی کوششوں میں اضافہ کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔

اس دورے میں انہوں ںے سرکاری حکام، اقوام متحدہ کے اداروں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، مذہبی رہنماؤں، سفارت کاروں اور مقامی لڑکوں اور لڑکیوں سے ملاقاتیں کیں۔

جرائم کی نشاندہی کا نظام

ماما فاطمہ سنگھاتا نے فلپائن میں اس حوالے سے اٹھائے جانے والے بعض اقدامات کو حوصلہ افزا قرار دیا جن میں متاثرہ بچوں کو طبی، نفسیاتی اور سماجی بہبود کی خدمات مہیا کرنے کا مرکز بھی شامل ہے۔ تاہم انہوں ںے واضح کیا کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''فلپائن کو جرائم کی نشاندہی، شکایات سے نمٹنے اور بچوں کے تحفظ کے ذمہ دار حکام اور سماجی کارکنوں کی صلاحیتیں بڑھانے اور متاثرین کو بامعنی مدد اور بحالی مہیا کرنے کے لیے ایک مضبوط نظام قائم کرنا ہو گا۔''

انسانی حقوق کی ماہر نے حکومت اور متعلقہ فریقین پر زور دیا کہ وہ بچوں کی خریدوفروخت، نوعمری کی شادی، غیرقانونی طور پر گود لیے جانے کے ذریعے بچوں کی فروخت، سفر و سیاحت کے تناظر میں بچوں کے جنسی استحصال اور نوعمری کے حمل جیسے مسائل پر قابو پانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کریں۔

غیرمحفوظ بچوں کی مدد

انہوں نے بتایا کہ سفروسیاحت کی صنعت میں بچوں کے جنسی استحصال پر سزاؤں سے متعلق قوانین کمزور ہیں۔

ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ''اس شعبے میں حکام سفروسیاحت کے تناظر میں جنسی استحصال کی وسعت اور اس کی مختلف صورتوں کے بارے میں بظاہر خاطرخواہ معلومات نہیں رکھتے۔ انہیں اس مسئلے پر جامع تربیت اور حساسیت حاصل کرنا ہو گی۔''

اس بارے میں قانونی خامیوں اور مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ماما فاطمہ سنگھاتا نے بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کے بارے میں مرکزی سطح پر الگ الگ درجوں میں درست معلومات ترتیب دینے کی سفارش کی۔

انہوں نے کہا کہ سیاحت اور مالی لین دین کی بنیاد پر ہونے والی جنسی سرگرمیوں کے تناظر میں جنسی استحصال کے مسئلے پر بھرپور توجہ دی جانی چاہیے۔

انہوں نے حکام پر بھی زور دیا کہ وہ معاشرے کے غیرمحفوظ گروہوں بشمول بچوں، معذور افراد اور مقامی، نسلی اور اقلیتی برادریوں کی مدد میں اضافہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''غیرمحفوظ بچوں کو لاحق شدید خطرات کو محدود کرنے کے لیے مناسب وسائل مختص کرنے اور بچوں پر مرتکز، متاثرین کو لاحق صدمے کے بارے میں آگاہی اور صنفی اعتبار سے حساسیت پر مبنی طریقہ کار کا ہونا بہت ضروری ہے۔''

اقوام متحدہ کے اطلاع کار

ماما فاطمہ سنگھاتا جیسے خصوصی اطلاع کار جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی جانب سے متعین کیے جاتے ہیں۔

یہ ماہرین کسی ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے ٰخصوصی حالات یا مسائل کا جائزہ لیتے اور اپنی رپورٹ دیتے ہیں۔

ان ماہرین کا تعلق کسی حکومت یا ادارے سے نہیں ہوتا، یہ انفرادی حیثیت میں کام کرتے ہیں۔ یہ ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور انہیں اس کام پر کوئی معاوضہ بھی ادا نہیں کیا جاتا۔

ماما فاطمہ سنگھاتا اپنے دورے کے نتائج اور سفارشات پر مبنی رپورٹ مارچ میں کونسل کو پیش کریں گی۔