انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: لوگوں کو دلجوئی کی بھی ضرورت کیونکہ تباہی صرف مادی نہیں ہوئی، کاگ

غزہ میں امدادی امور اور تعمیر نو کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی رابطہ کار سگریڈ کاگ غزہ کے علاقے خان یونس کے النصر ہسپتال کا دورہ کر رہی ہیں۔
OCHA / Olga Cherevko
غزہ میں امدادی امور اور تعمیر نو کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی رابطہ کار سگریڈ کاگ غزہ کے علاقے خان یونس کے النصر ہسپتال کا دورہ کر رہی ہیں۔

غزہ: لوگوں کو دلجوئی کی بھی ضرورت کیونکہ تباہی صرف مادی نہیں ہوئی، کاگ

انسانی امداد

غزہ میں امدادی امور اور تعمیر نو کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی رابطہ کار سگریڈ کاگ نے کہا ہے کہ سات ماہ سے بمباری کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کی تکالیف کا مداوا کرنا اور علاقے میں بحالی کی سرگرمیوں کا فوری آغاز ہونا ضروری ہے۔

یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں نے جن مشکلات کا سامنا کیا ہے ان کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے مصائب میں کمی لانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ 

سگریڈ کاگ نے غزہ میں بڑے پیمانے پر امداد کی فراہمی کے لیے مزید گزر گاہیں کھولنے، بچوں کی تعلیم بحال کرنے اور لوگوں کے دکھوں اور زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت بھی واضح کی۔

ہولناک تباہی

رابطہ کار نے بتایا کہ گزشتہ دنوں وہ غزہ کا چوتھا دورہ کر کے واپس آئی ہیں۔ اس مرتبہ ان کے مشن کا مقصد علاقے میں طبی حالات کا جائزہ لینا تھا جس کے لیےعالمی ادارہ صحت  (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم بھی ان کے ساتھ تھی۔ وہ جنوبی غزہ کے نصر میڈیکل کمپلیکس میں بھی گئیں جو اندر سے پوری طرح تباہ ہو چکا تھا اور اب اسے کسی حد تک بحال کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اس دورے میں انہوں نے ہولناک تباہی دیکھی۔ لوگوں نے بتایا کہ جنگ میں انہیں بے پایاں تکالیف اور غیرانسانی حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سگریڈ کاگ غزہ کا دورہ کرتے ہوئے۔
UN OCHA / Mustafa El-Halabi

امدادی منصوبہ بندی

انہوں نے کہا کہ غزہ میں امداد کی فراہمی کے لیے نئی گزرگاہیں کھولنے پر بات چیت جاری ہے جن میں اردن کا راستہ بھی شامل ہے۔ علاقے میں پہنچائی جانے والی امداد کا حجم بڑھانے کے لیے سمندری راہداری قائم کرنا قابل ستائش اقدام ہے لیکن یہ زمینی راستے سے امداد کی فراہمی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ 

غزہ میں زیادہ سے زیادہ زمینی راستوں سے رسائی ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ امدادی سرگرمیوں اور انہیں انجام دینے والے کارکنوں کو تحفظ کی فراہمی بھی یقینی بنانا ہو گی۔ اس مقصد کے لیے امدادی اداروں اور اسرائیلی حکام کے مابین متواتر رابطوں کا موثر طریقہ کار درکار ہے۔ تاہم یہ حساس اور پیچیدہ عمل ہے جس کے لیے نہایت واضح سمجھ بوجھ اور بات چیت کی ضرورت ہو گی جس کے لیے اسرائیلی حکام اور فوج سے بات چیت جاری ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کا کردار

سگریڈ کاگ نے کہا کہ غزہ میں لوگوں کو مدد دینے اور علاقے کی تعمیر نو کے کام میں فلسطینی اتھارٹی کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ سیکرٹری جنرل نے بھی متعدد مواقع پر یہی بات کہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس غزہ کے لیے اصلاحات اور منصوبے ہیں اور وہ لوگوں کو مدد دینے اور تعمیرنو کے عمل کی قیادت کر سکتی ہے۔ 

غزہ میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور صرف ملبہ ہٹانے کا کام ہی بہت مشکل ہدف ہے۔ اس کے ساتھ وہاں بچوں کو سکولوں یا سیکھنے کی جگہوں پر واپس بھیجنا بھی ضروری ہے۔ 

انہون نے کہا کہ بنیادی طور پر بحالی اور قیام امن کا تعلق سیاسی محاذ پر ہونے والی پیش رفت سے ہے اور مسئلے کا دو ریاستی حل ہی اس کا موثر طریقہ ہے، لیکن لوگوں کو انتظار کرنے کے لیے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ پہلے ہی ان کا بہت سا نقصان ہو چکا ہے۔

سگریڈ کاگ غزہ میں غذائی قلت کا شکار ایک بچی کی خیریت دریافت کر رہی ہیں۔
OCHA / Olga Cherevko

باوقار زندگی کی خواہش

رابطہ کار کا کہنا تھا کہ غزہ سے باہر بیٹھ کر وہاں کے لوگوں کی بے پایاں تکالیف کا پوری طرح ادراک نہیں ہو سکتا۔ بچوں نے والدین اور عزیزوں کو کھو دیا ہے۔ زخمیوں کو بے ہوش کیے بغیر ان کے جسمانی اعضا قطع کرنا پڑے ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو کئی مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ ان لوگوں کے لیے محض مادی بحالی کافی نہیں ہو گی بلکہ انہیں موثر دلجوئی اور تشفی کی بھی ضرورت ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ حالیہ دورے میں انہوں نے جن لوگوں سے بات کی ان کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ انہیں باوقار زندگی جینے کا موقع ملے۔ غزہ کے لوگوں کو یہ موقع مہیا کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس میں مدد دینا عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔