انسانی کہانیاں عالمی تناظر
چین کے علاقے ین چانگ میں ساحل سمندر پر ہوا سے چلنے والی ٹربائن کی ایک قطار۔

ماحول کی بہتری کے لیے قابل تجدید توانائی کا استعمال اہم

© Yan Wang
چین کے علاقے ین چانگ میں ساحل سمندر پر ہوا سے چلنے والی ٹربائن کی ایک قطار۔

ماحول کی بہتری کے لیے قابل تجدید توانائی کا استعمال اہم

موسم اور ماحول

اگر حکومتوں کا تعاون حاصل ہو تو قابل تجدید توانائی کے سستے اور ماحول دوست ذرائع تک عام اور مساوی رسائی یقینی بنائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے عزائم کو عملی اقدامات میں ڈھالنا ضروری ہے۔

یہ بات قابل تجدید توانائی کے لیے بین الاقوامی ادارے (آئرینا٭) کے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو لا کیمیرا نے یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ہے۔ 

قابل تجدید توانائی سے مراد ایسی توانائی ہے جس کو استعمال کرنے سے اس میں ہونے والی کمی متواتر پوری ہوتی رہے۔ اس میں شمسی، ہوائی، حیاتیاتی توانائی (نامیاتی مواد کا بطور ایندھن استعمال) اور پن بجلی شامل ہے۔ 

سستی، قابل بھروسہ، پائیدار اور جدید توانائی تک تمام لوگوں کی رسائی یقینی بنانا پائیدار ترقی کا ساتواں ہدف (ایس ڈی جی 7) بھی ہے۔

فرانسسکو لا کیمیرا کے ساتھ یہ نشست اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے زیراہتمام منائے گئے 'ہفتہ استحکام' کے آخری روز توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب منتقلی کے موضوع پر اجلاس سے قبل ہوئی۔

طوالت اور وضاحت کے مقصد سے اس انٹرویو کو مدون کیا گیا ہے۔

یو این نیوز: حکومتوں، بین الاقوامی اداروں اور دیگر فریقین کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے قائل کرنے کی کوشش میں آپ کو کس طرح کے مسائل کا سامنا رہا؟ 

فرانسسکو لا کیمیرا: حکومتوں کو توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب منتقلی پر راغب کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں لیکن وہ اس معاملے میں اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں ابھی پیچھے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ انہیں اس مقصد کے لیے درست راہ کے انتخاب میں مدد دینی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس مسئلے سے نمٹنا ہے کہ 2030 تک قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی تنصیب میں تین گنا اضافہ کیونکر ممکن ہے اور ہم اس ہدف کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔

قابل تجدید توانائی کے لیے بین الاقوامی ادارے ’آئرینا‘ کے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو لا کیمیرا (بائیں جانب سے دوسرے) چین کے علاقے ین چانگ میں ہوا سے چلنے والی ٹربائن کے منصوبے کا جائزہ لیتے ہوئے۔
UN News/Jing Zhang
قابل تجدید توانائی کے لیے بین الاقوامی ادارے ’آئرینا‘ کے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو لا کیمیرا (بائیں جانب سے دوسرے) چین کے علاقے ین چانگ میں ہوا سے چلنے والی ٹربائن کے منصوبے کا جائزہ لیتے ہوئے۔

یو این نیوز: ممالک کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے ان مسائل پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟

فرانسسکو لا کیمیرا: تمام ممالک نے اس حوالے سے وعدے کیے ہیں۔ ہمیں کارآمد بین الاقوامی تعاون کا نیا طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں ہر طرح کے تمام متعلقہ اداروں کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔

مثال کے طور پر 'آئرینا' میں ہم کینیا کے صدر ولیم روٹو کے ساتھ مل کر افریقہ میں قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی رفتار تیز کرنے کی غرض سے شراکت قائم کر رہے ہیں۔ 'افریقہ میں قابل تجدید توانائی کے لیے تیزرفتار شراکت' (اپرا) کے نام سے یہ اقدام گزشتہ برس نیروبی میں ہونے والی پہلی 'افریقی موسمیاتی کانفرنس' میں شروع کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں گزشتہ سال کاپ 28 کےموقع پر 'اپرا' میں شریک ممالک کے رہنماؤں نے اس حوالے سے ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا۔ اس کا مقصد افریقہ میں توانائی تک رسائی، اس کے تحفظ اور توانائی کے ماحول دوست ذرائع کی ترقی کے لیے سٹریٹیجک حل ڈھونڈنا تھا۔ 

اب کینیا سمیت افریقہ کے سات ممالک اور ڈنمارک، جرمنی، امریکہ اور متحدہ عرب امارات جیسے ترقی یافتہ ملک بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ کیسے ہم بین الاقوامی تعاون کے حوالے سے منظرنامہ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم خود منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور ان ممالک کو بھی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو تیزی سے ترقی دینے کے منصوبوں کی تیاری میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ باہم مل کر ہم ان منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بین الاقوامی تعاون کا ایک نیا طریقہ کار بھی اختیار کر رہے ہیں۔ 

یو این نیوز: کیا قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے معاملے میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے طریقہ ہائے کار، عزائم اور اقدامات میں نمایاں فرق ہے؟ 

فرانسسکو لا کیمیرا: ترقی یافتہ دنیا کو نظام تبدیل کرنا ہو گا۔ تاہم ترقی پذیر ممالک اس معاملے میں بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں اور توانائی کے نئے نظام کی جانب براہ راست مراجعت کر سکتے ہیں کیونکہ توانائی کے حقیقی اور مفید نظام بہت کم ہیں۔ دنیا کے ان مختلف حصوں میں توانائی کے نظام کی صورتحال میں بڑا فرق پایا جاتا ہے جو قابل تجدید توانائی تک غیرمساوی رسائی کی صورت میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ 

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس مطلوبہ تبدیلیاں لانے کے لیے درکار ذرائع اور مالی وسائل موجود ہیں۔

ترقی پذیر دنیا کو کئی طرح سے مدد کی ضرورت ہے۔ ان ممالک کو اپنے تجربات، مالی وسائل اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، تبدیلی کی رفتار تیز کرنے میں حائل رکاوٹوں پر بھی قابو پانا ہو گا اور افریقہ میں یہ ضرورت خاص طور پر زیادہ ہے۔ 

دیکھا جائے تو غالباً افریقہ دنیا میں قابل تجدید توانائی اور ماحول دوست ہائیڈروجن (صاف اور قابل تجدید توانائی کی حامل) کی پیداوار کے اعتبار سے اہم ترین خطہ ہے۔ تاہم اس کے پاس اپنی اس صلاحیت سے اپنے لوگوں اور دنیا بھر کو فائدہ پہنچانے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے جبکہ بندرگاہوں، پائپ لائنوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کا اس میں فیصلہ کن اور اہم کردار ہوتا ہے۔

مڈغاسکر میں ایک کسان آبپاشی کے لیے شمسی توانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے۔
UN News/Daniel Dickinson
مڈغاسکر میں ایک کسان آبپاشی کے لیے شمسی توانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے۔

یو این نیوز: کیا آپ ہمیں کسی ایسی جگہ کے بارے میں بتا سکتے ہیں جہاں آپ نے 2030 تک ایس ڈی جی 7 کے حصول میں قابل ذکر پیش رفت کا مشاہدہ کیا ہو۔ 

فرانسسکو لا کیمیرا: اس حوالے سے مجھے ماریشس کی مثال نے بہت متاثر کیا جہاں ہمارے تعاون سے لوگوں کے گھروں اور نجی و سرکاری عمارتوں میں شمسی توانائی کے حصول کا نظام نصب کرنے سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اسے وہاں ایس ڈی جی 7 کے حصول کی جانب نمایاں پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔

یو این نیوز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کہیں اور بھی اس مثال کو دہرایا جا سکتا ہے؟ 

فرانسسکو لا کیمیرا: قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی رفتار تیز کرنے کے لیے ہمیں بعض بنیادی رکاوٹوں پر قابو پانا ہو گا۔ اس ضمن میں بنیادی ڈھانچے کی کمی پہلی رکاوٹ ہے۔ موثر بجلی اور اس کے باہم متعامل ذخیرے، گرڈ کی لچک اور توازن کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ جہاں ضرورت ہو وہاں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پہلے سے موجود نظام کو جدت دینا اولین ترجیح ہے۔

اس حوالے سے موجودہ قانونی نظام سے اتصال کے معاملے میں بھی مسائل درپیش ہیں۔ توانائی کی منڈی کی موجودہ شکل قابل تجدید توانائی کے لیے سازگار نہیں ہے۔ اب بھی معدنی ایندھن کے منصوبوں کو بڑے پیمانے پر امدادی قیمت ملتی ہے جس کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔ 

علاوہ ازیں بجلی کی خریداری کے معاہدے اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں جس سے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ترقی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ توانائی کی قیمتوں کا طریقہ کار قابل تجدید توانائی کے لیے موزوں نہیں ہے کیونکہ اسے مہیا کردہ بجلی اور اس کی قیمت کے معاملے میں استحکام اور تحفظ کے حصول کے لیے طویل مدتی معاہدے درکار ہوتے ہیں۔ 

آخر میں ہمیں قابل تجدید توانائی کو ترقی دینے کے لیے باصلاحیت پیشہ ور افراد اور ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت ہے۔

اگر ہم دبئی میں ہونے والی کاپ 28 میں کیے گئے عہد کے مطابق معدنی ایندھن کا استعمال واقعتاً ترک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تین رکاوٹوں پر قابو پانا ہو گا۔

کابل کو بجلی فراہم کرنے والے کھمبے۔
UN Photo/Jawad Jalali
کابل کو بجلی فراہم کرنے والے کھمبے۔

یو این نیوز: عام شہری قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ 

فرانسسکو لا کیمیرا: ہمارے تمام فیصلوں کا مقصد مزید بہتر استعداد کا حصول ہے لیکن اس حوالے سے ایسا قانونی ماحول سب سے زیادہ اہم ہے جہاں ہر کوئی یہ سمجھے کہ قابل تجدید توانائی کی جانب مراجعت اس کی ذمہ داری ہے۔ ہم محض اسے اخلاقی لازمہ قرار دے کر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ معاشرے کو توانائی کی استعداد اور اس کے تحفظ سے متعلق بہتر فیصلے کرنے کے لیے آسان اور سادہ ماحول تخلیق کرنا ہو گا۔

٭ آئرینا بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا مقصد ممالک کو پائیدار توانائی کی جانب منتقلی میں مدد دینا ہے۔ 26 جنوری 2024 کو اقوام متحدہ نے 'آئرینا' کے قیام کی سالگرہ پر ماحول دوست توانائی کا پہلا عالمی دن بھی منایا تھا۔