انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی مذمت

ایک فلسطینی خاندان غزہ کے علاقے خان یونس سے نقل مکانی کر رہا ہے۔
© UNOCHA/Themba Linden
ایک فلسطینی خاندان غزہ کے علاقے خان یونس سے نقل مکانی کر رہا ہے۔

غزہ: اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی مذمت

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے مقرر کردہ انسانی حقوق کے غیرجانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر حملوں میں مصنوعی ذہانت کے مبینہ استعمال سے شہریوں، گھروں اور خدمات کو بہت بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چھ ماہ سے جاری جنگ میں عام لوگوں اور بنیادی ڈھانچے کو جس قدر بھاری نقصان ہوا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

Tweet URL

ان ماہرین میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار فرانچسکا البانیز سمیت دیگر شامل ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ غزہ میں اندازاً 60 تا 70 فیصد اور شمالی علاقے میں 84 فیصد گھر یا تو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ 

انسانیت کے خلاف جرم

ماہرین کے مطابق اس جنگ میں غزہ کی پٹی کو اندازاً 18.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جو کہ غزہ اور مغربی کنارے کی مجموعی معیشت کے 97 فیصد حصے کے برابر ہے۔ اس نقصان کی تلافی کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ گھروں کی تعمیر نو اور 19 فیصد پانی، نکاسی، آب، بجلی اور سڑکوں کی بحالی پر خرچ ہوں گے۔ 

لوگوں کے گھروں کے ساتھ ان کی یادیں، امیدیں، خواہشات اور زمین، پانی، خوراک، نکاسی آب، صحت، سلامتی اور نجی اخفا، تعلیم، ترقی، صحت مند ماحول اور خود اختیاری کے حقوق سے کام لینے کی صلاحیت بھی ختم ہو گئی ہے۔

ماہرین نے فرانچسکا البانیز کی جانب سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو پیش کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی منظم اور وسیع تباہی انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے سرکاری حکام فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے، علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے اور وہاں اپنی آبادیاں قائم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت کے سابق حکام کی جانب سے مبینہ طور پر غزہ کے ساحلی علاقے کی املاک کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہےکہ اسرائیل کا مقصد حماس کو عسکری شکست دینے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

شمال کی جانب واپسی

غزہ بھر میں اسرائیل کی بمباری آج بھی جاری رہی جس میں وسطی علاقے میں نصیرت پناہ گزین کیمپ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس کارروائی میں پانچ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ 

غزہ کے طبی حکام کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد علاقے میں 33,200 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔ 

اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں ہزاروں لوگ شمالی غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی تصاویر میں ہر عمر کے لوگوں کو ساحلی سڑک سے شمال کی جانب جاتے دیکھا جا سکتا ہے جن کی اکثریت پیدل ہے جبکہ بعض لوگ گدھا گاڑیوں پر سوار ہیں۔اسرائیل کی جانب سے ٹینکوں کے ذریعے سڑک کو بند کرنے اور لوگوں کو واپس بھیجنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ 

تنوروں کی بحالی

عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے غزہ شہر میں متعدد تنوروں کی مرمت اور انہیں ایندھن کی فراہمی کے ذریعے روٹی کی پیداوار بحال کرنے میں مدد دی ہے۔ 7 اکتوبر سے پہلے غزہ میں 140 تنور کام کر رہے تھے۔

ادارے کا کہنا ہےکہ وہ تنوروں کو آٹے اور دیگر وسائل کی فراہمی جاری رکھے گا تاکہ لوگوں کو روٹی دستیاب رہے۔ تاہم غزہ آنے والی غذائی مدد سے ضروریات کی تکمیل سے متعلق طویل مدتی منصوبہ بندی ممکن نہیں۔ علاقے میں قحط کے خطرے پر قابو پانے کے لیے خوراک کی محفوظ، متواتر اور بڑے پیمانے پر فراہمی ضروری ہے۔ 

رفح کے غیریقینی حالات

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ فلیپو گرینڈی نے خبردار کیا ہے کہ رفح پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کے پیش نظر لوگوں کی بڑی تعداد مصر میں نقل مکانی کی کوشش کر سکتی ہے جس سے ایک بڑا بحران جنم لے گا۔ 

ان کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے سربراہ رہ چکے ہیں اور اپنے علم و تجربے کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات میں فلسطینی پناہ گزینوں کے بحران اور اس تنازع کا حل ناممکن ہو جائے گا۔

انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ہرممکن قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے غزہ میں رسائی ترجیح ہونی چاہیے جو کہ اس بحران کو روکنے کا واحد طریقہ ہے۔