انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ کی بعد از جنگ بحالی و تعمیر نو کی منصوبہ بندی

رفح کے محلے الشبورا میں بمباری سے زمین بوس ہو جانے والی رہائشی عمارتیں۔
UN News/Ziad Taleb
رفح کے محلے الشبورا میں بمباری سے زمین بوس ہو جانے والی رہائشی عمارتیں۔

غزہ کی بعد از جنگ بحالی و تعمیر نو کی منصوبہ بندی

امن اور سلامتی

غزہ میں چھ ماہ سے جاری اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملوں میں 33 ہزار افراد ہلاک اور 10 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اندازہ ہے کہ جنگ کے بعد علاقے میں تعمیر نو کے لیے کم از کم 18.5 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

اس جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے زیرقیادت فلسطینی جنگجوؤں کے حملوں سے ہوا تھا جن میں تقریباً 1,200 لوگ ہلاک ہوئے 240 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملوں میں بیشتر رہائشی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ جنگ میں 90 فیصد طبی مراکز بھی تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح سکولوں کو بھی عسکری کارروائیوں کا ہدف بنایا گیا ہے جنہیں یا تو بری طرح نقصان پہنچا یا اب وہ بے گھر لوگوں کی پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ یہ جنگ روزانہ بڑی تعداد میں شہریوں کی جانیں لے رہی ہے اور 7 اکتوبر کے بعد غزہ کے لوگوں نے موت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں ہونے والے غیرمعمولی انسانی نقصان پر دنیا میں بھر میں غم و غصہ پایا جاتا ہے لیکن اسے روکنے کے لیے کچھ زیادہ کوششیں نہیں ہوئیں اور عالمی قوانین کی پامالی کا ارتکاب کرنے والوں کو بظاہر کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ 

تاحال یہ واضح نہیں کہ غزہ کے لوگ امن قائم ہونے سے پہلے مزید کتنی تباہی اور موت دیکھیں گے۔ اسی طرح یہ بھی غیریقینی ہے کہ جنگ کے بعد وہاں کیسا معاشرہ سامنے آئے گا، تاہم اقوام متحدہ کے ادارے ابھی سے علاقے میں بحالی کی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں۔

غزہ میں کچھ  بیکریاں اب بھی کام کر رہی ہیں۔
© WFP
غزہ میں کچھ بیکریاں اب بھی کام کر رہی ہیں۔

روزگار اور معیشت

عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کی ماہر معاشیات ایا جعفر کا کہنا ہے کہ چھ ماہ سے جاری جنگ میں غزہ کی معیشت ہر شعبے میں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔ اندازے کے مطابق غزہ میں دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کے روزگار ختم ہو گئے ہیں اور یہ قبل از جنگ افرادی قوت کا تقریباً 90 فیصد ہے۔

'آئی ایل او' کے مطابق علاقے میں مجموعی آمدنی کا روزانہ نقصان 41 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ یہ نقصان اٹھانے والوں میں غزہ کے ایسے فلسطینی بھی شامل ہیں جو اسرائیل میں کام کر کے اجرت پاتے تھے اور اب بے روزگار ہو چکے ہیں۔

تعمیراتی شعبے کو غزہ کی معیشت میں اہم مقام حاصل رہا ہے لیکن 'آئی ایل او' کے مطابق اس شعبے کی سرگرمیوں میں 96 فیصد تک کمی آئی ہے۔ زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبے بھی بند ہو چکے ہیں۔اس وقت علاقے میں تنور اور خوراک فراہم کرنے والے چھوٹے کاروبار اور چند دواخانے ہی کام کر رہے ہیں۔ 

آئندہ کیا ہو گا؟

'آئی ایل او' کا اندازہ ہے کہ غزہ میں ہلاک ہونے والے 25 فیصد افراد کام کرنے کی عمر کے مرد ہیں۔ ایا جعفر کا کہنا ہے کہ روزی کمانے والوں کے اس نقصان کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کے بعد بہت سے خاندانوں کو معاشی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ نتیجتاً بچوں کے استحصال سے متعلق خدشات بھی بڑھ جائیں گے۔ 

انہوں نے بتایا ہے کہ جنگ سے فوری بعد ایسے افراد کے لیے ہنگامی بنیادوں پر روزگار کی فراہمی کے پروگرام شروع کرنا ضروری ہو گا جو اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔ متوقع طور پر چھوٹے کاروباروں کو ہنگامی مالی مدد اور اجرتوں پر سبسڈی کی ضرورت ہو گی تاکہ تجارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو سکیں اور مقامی معیشت کو بحالی میں سہولت ملے۔ اس کے علاوہ افرادی قوت کی مہارتوں میں جامع طور سے بہتری لانا اور لوگوں کو فنی تربیت مہیا کرنا بھی ضروری ہو گا۔

غزہ میں مستقبل کی حکومت کو ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی جس سے ناصرف معاشی حالات میں بہتری آئے بلکہ اس سے باوقار روزگار کے مواقع بھی کھلیں۔ اس ضمن میں 'آئی ایل او' کے زیراہتمام سرمایہ کاری کے پروگرام بھی اہم کردار ادا کریں گے جن سے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع مہیا ہونے کے ساتھ تباہ شدہ ڈھانچے کی تعمیرنو اور بحالی ممکن ہو سکے گی۔

غزہ کے مکینوں کو لمبے عرصے تک انسانی امداد کی ضرورت رہے گی۔
© UNRWA
غزہ کے مکینوں کو لمبے عرصے تک انسانی امداد کی ضرورت رہے گی۔

خوراک کا انتظام

عالمی پروگرام برائے خوراک کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل عبدالحکیم الویر کا کہنا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو خوراک کی فراہمی اس جنگ کے آغاز سے ہی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ شمالی غزہ میں بہت سے لوگوں کو شدید غذائی قلت اور بھوک کا سامنا ہےا ور علاقے میں قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

جنگ سے پہلے غزہ میں زراعت اور ماہی گیری کے شعبے ترقی کر رہے تھے جو ناصرف مقامی ضروریات پوری کرتے تھے بلکہ اپنی فاضل پیداوار برآمد بھی کر رہے تھے۔ علاوہ ازیں، پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں یہ علاقہ جزوی طور پر خودکفیل تھا۔ تاہم پورے علاقے میں بے رحمانہ بمباری کے باعث زرعی شعبہ ختم ہو گیا ہے اور 50 فیصد زرعی اراضی تباہ ہو چکی ہے۔

علاقے میں مویشی کسی حد تک اب بھی موجود ہیں لیکن ان کے لیے چارہ دستیاب نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق خوراک کی قلت کے باعث غزہ کے بعض لوگ جانوروں کی خوراک کھانے پر مجبور ہیں۔ 'ایف اے او' نے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے مویشیوں کے لیے 500 ٹن چارہ مہیا کرنے کی اجازت لینے میں تین ماہ لگے ہیں۔ 

زرعی پیداوار کی بحالی

عبدالحکیم الویر کا کہنا ہے کہ غزہ کے لوگ مقامی زرعی پیداوار دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم انہیں بیج، کھادیں اور کیڑے مار ادویات درکار ہیں۔ بہت سے مسائل کے باعث تجارتی زرعی شعبے کو 7 اکتوبر سے پہلے کی سطح پر لانا آسان نہیں ہو گا۔50  فیصد سے زیادہ زرعی املاک تباہ ہو گئی ہے جس کی بحالی کے لیے بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد کم از کم دو سال تک امدادی شعبے کو بحالی کے عمل کی قیادت کرنا ہو گی۔ جب کسی حد تک استحکام اور اعتماد بحال ہو جائے گا تو تب ہی لوگ واپس آئیں گے اور اپنےکاروبار دوبارہ شروع کریں گے۔ 

تعمیرنو اور بحالی کے اخراجات

چونکہ فی الوقت جنگ جاری ہے اس لیے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ غزہ کی تعمیرنو پر کتنے اخراجات آئیں گے اور اس کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا۔

اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کے ماہر معاشیات رامی علیزہ کہتے ہیں کہ بحالی کے عمل میں کئی دہائیاں صرف ہوں گی اور عالمی برادری کو دسیوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔

جنوری 2024 تک عالمی بینک نے بحالی پر 18.5 ارب ڈالر کے اخراجات کا اندازہ لگایا تھا لیکن اس کے بعد دو ماہ میں غزہ مزید تباہی دیکھ چکا ہے۔ بینک کے مطابق بحالی کے مجموعی اخراجات کا 72 فیصد تعمیرات پر خرچ ہو گا اور 19 فیصد اخراجات پانی، صحت اور تعلیم کی خدمات بحال کرنے پر صرف ہوں گے۔

تاہم اس میں آئندہ کئی برس تک لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے دی جانے والی انسانی امداد کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی 'مائن ایکشن سروس' کے مطابق علاقے کو تباہ کن بارودی سرنگوں اور اَن پھٹے گولہ بارود سے صاف کرنے پر بھی بھاری رقم اور طویل عرصہ صرف ہو گا۔

اسرائیلی محاصرے کے بعد غزہ کے الشفاء ہستپال کی تباہی کی ایک تصویر۔
UN News
اسرائیلی محاصرے کے بعد غزہ کے الشفاء ہستپال کی تباہی کی ایک تصویر۔

خدشات اور توقعات 

فی الوقت یہ واضح نہیں ہے کہ آیا تعمیرنو کے لیے درکار مالی وسائل دستیاب ہو پائیں گے یا نہیں۔ اگر جنگ ختم ہوتے ہی غزہ کی بحالی شروع کرنا ہو اور اسرائیل 18 سال سے جاری غزہ کا محاصرہ ختم کر دے جبکہ آنے والے برسوں میں غزہ کی معیشت میں ترقی کی 10 فیصد شرح بحال ہو جائے تو 2006 سے پہلے والے حالات کی واپسی میں کم از کم دس برس صرف ہوں گے۔   

اگر بدترین صورتحال کو مدنظر رکھا جائے جس میں معیشت صرف 0.4 فیصد کی سالانہ شرح سے ترقی کرے تو غزہ کی 2022 کی سطح پر مکمل بحالی 2092 سے پہلے ممکن نہیں ہو سکتی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اپنے مستقبل کے حوالے سے امیدیں بحال کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے دو ریاستی حل سمیت فلسطینیوں کے لیے جامع سیاسی منصوبہ بندی درکار ہو گی۔