انسانی کہانیاں عالمی تناظر

نومولود بچوں کے لیے غزہ پیدائش سے ہی ایک جہنم، یونیسف

غزہ کے الشفاء ہسپتال میں نومولود بچوں کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے (فائل)۔
© UNICEF/Eyad El Baba
غزہ کے الشفاء ہسپتال میں نومولود بچوں کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے (فائل)۔

نومولود بچوں کے لیے غزہ پیدائش سے ہی ایک جہنم، یونیسف

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی جنگ کے دوران پیدا ہونے والے 20 ہزار بچوں کے لیے جہنم بن چکی ہے جہاں متواتر بمباری اور بنیادی ضروریات کی شدید قلت کے باعث ان کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

یونیسف نے فوری جنگ بندی کے لیے دنیا کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ امداد کی رسائی میں حائل شدید مسائل کے باعث بچوں کی پیدائش کے لیے بہت سے آپریشن ماؤں کو بے ہوش کیے بغیر کیے جا رہے ہیں۔ طبی عملے کی کمی کے باعث مردہ بچوں کی پیدائش کے لیے آپریشن کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔

Tweet URL

ادارے کی ترجمان ٹیس انگرام نے بتایا ہے کہ ماؤں کو مناسب طبی نگہداشت، غذائیت اور زچگی سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں طبی تحفظ کے حصول میں ناقابل بیان مسائل کا سامنا ہے۔ ماں بننا خوشی کا موقع ہوتا ہے لیکن غزہ میں مائیں بچوں کو گویا جہنم میں جنم دے رہی ہیں۔

ہیپا ٹائٹس کا پھیلاؤ

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے غزہ میں ہیپا ٹائٹس اے کے پھیلاؤ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں رہن سہن کے غیرانسانی حالات، صاف پانی کی کمیابی، صحت و صفائی اور نکاسی آب کی سہولیات کے فقدان کے باعث یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ 

'ڈبلیو ایچ او' کی جاری کردہ تازہ ترین معلومات کے مطابق علاقے میں اوسطاً 500 افراد کے لیے ایک بیت الخلا اور 2,000 افراد کے لیے ایک شاور ہے۔ 

سانس کے مسائل میں اضافے کے علاوہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں اسہال بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 2023 کے آخری تین مہینوں کے دوران غزہ میں اس بیماری میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد میں 2022 کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 26 گنا اضافہ دیکھا گیا۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ترجمان طارق جاساروک نے کہا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ گنجائش سے کہیں زیادہ بھری پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔ ان جگہوں پر صاف پانی اور بیت الخلا کی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ 

بم باری اور زمینی حملوں میں زخمی ہونے والے لوگوں کو طبی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم انہیں فراہم کی جانے والی صحت کی خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ خان یونس کے نصر میڈیکل کمپلیکس میں اس وقت دو ڈاکٹر اور چار نرسیں ہی دستیاب ہیں۔ ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں صرف 14 بستر میسر ہیں۔

غزہ کے النصر ہسپتال میں ایک ماں اپنے بچے کی دیکھ بھال میں مصروف ہے۔
© UNICEF/Abed Zaqout
غزہ کے النصر ہسپتال میں ایک ماں اپنے بچے کی دیکھ بھال میں مصروف ہے۔

ماؤں اور بچوں کے لیے مدد

یونیسف نے غزہ میں کمزور ماؤں اور بچوں کے لیے فارمولا دودھ اور قوت بخش غذائی اجزا فراہم کرنے کی یقینی دہانی کرائی ہے۔ اس کے علاوہ طبی ٹیموں کو ادویات اور علاج معالجے کا سامان بھی مہیا کیا جائے گا۔ تاہم غزہ کے لوگوں کی ضروریات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

ٹیس انگرام حالیہ دنوں غزہ کا دورہ کر کے آئی ہیں جنہوں نے بتایا کہ ہسپتالوں میں مریضوں اور زخمیوں کی بہت بڑی تعداد میں موجودگی کے باعث لوگوں کو خاطرخواہ طبی نگہداشت میسر نہیں رہی۔ رفح کے اماراتی ہسپتال میں آپریشن کے ذریعے بچوں کو جنم دینے والی ماؤں کو زچگی کے بعد تین گھنٹے میں ہسپتال چھوڑنا پڑتا ہے۔ 

25 ہزار ہلاکتیں

ٹیس انگرام نے مزید بتایا کہ غزہ میں دو سال سے کم عمر کے تقریباً ایک لاکھ 35 ہزار بچوں کو انتہائی درجے کی غذائی قلت کا سامنا ہے۔ یہ بچے عارضی خیموں میں غیرانسانی حالات میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں غذائیت اور صاف پانی میسر نہیں ہے۔ 

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے غزہ کی وزارت صحت کے حوالے سے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد علاقے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 25 ہزار کےقریب پہنچ چکی ہے۔ ان میں 70 فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ کم از کم 61,500  سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔ مزید ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔

'اوچا ' نے امدادی کارروائیوں کی راہ میں حائل پابندیوں اور رکاوٹوں پر ایک مرتبہ پھر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 

ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے وادی غزہ میں امدادی کارروائیوں کی اجازت دینے سے انکار کے باعث علاقے میں انسانی حالات گمبھیر ہو چکے ہیں۔

فلسطینی خاندان تحفظ کی تلاش میں  غزہ کے شمالی سے جنوبی حصے کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔
© UNRWA/Ashraf Amra
فلسطینی خاندان تحفظ کی تلاش میں غزہ کے شمالی سے جنوبی حصے کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔

انسانی بحران اور تباہی

مقبوضہ فلسطینی علاقے کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے سربراہ اجیت سنگھے نے غزہ سے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ تاحال بہت بڑی تعداد میں بے گھر لوگ رفح کا رخ کر رہے ہیں۔ علاقے کو بہت بڑے پیمانے پر بحران اور انسانی ہاتھوں سے مسلط کردہ تباہی کا سامنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ علاقے میں مواصلاتی رابطے طویل دورانیے کے لیے معطل رہتے ہیں جس کے نتیجے میں غزہ کے لوگوں کو کسی علاقے سے انخلا کے لیے خدمات اور اطلاعات تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ 

انہوں نے کہا کہ وسطی غزہ اور خان یونس میں بم باری گھنٹوں جاری رہتی ہے۔ اسرائیل اور دیگر ممالک کے 100 یرغمالی تاحال علاقے میں موجود ہیں اور انہیں بھی اسی خوف کا سامنا ہو گا جو غزہ کے لوگوں کو درپیش ہے۔