انسانی کہانیاں عالمی تناظر

نیوکلیئر جنگ کے ’خطرے کے پیش نظر‘ گوتیرش کا تخفیف اسلحہ کا مطالبہ

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش جوہری ہتھیاروں کے خاتمے اور ان کے عدم پھیلاؤ پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں شریک ہیں۔
UN Photo/Evan Schneider
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش جوہری ہتھیاروں کے خاتمے اور ان کے عدم پھیلاؤ پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں شریک ہیں۔

نیوکلیئر جنگ کے ’خطرے کے پیش نظر‘ گوتیرش کا تخفیف اسلحہ کا مطالبہ

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں مکمل تباہی کے 80 برس بعد بھی جوہری ہتھیار عالمی امن و سلامتی کے لیے واضح اور موجود خطرہ ہیں۔

جوہری ہتھیاروں کے خاتمے اور ان کے عدم پھیلاؤ پر سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جوہری اسلحے کے فوری خاتمے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک سے کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے وہ مذاکرات اور جوابدہی سمیت چھ طریقوں سے کام لیں۔

Tweet URL

یہ اجلاس جاپان کی درخواست پر بلایا گیا ہے جو رواں مہینے سلامتی کونسل کی صدارت بھی کر رہا ہے۔ اس موقع پر سیکرٹری جنرل نے کہا کہ جاپان وہ واحد ملک ہے جو دوسروں سے کہیں بہتر طور پر جانتا ہے کہ جوہری تباہی کس قدر ہولناک ہوتی ہے۔

تباہی کی چاپ

انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب ارضی سیاسی تناؤ اور بداعتمادی کے باعث کئی دہائیوں کے بعد جوہری جنگ کے خدشات کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔ انسانیت کی اپنے ہاتھوں تباہی کا خطرہ بڑھتا چلا آ رہا ہے اور اس کی چاپ واضح طور پر سنی جا سکتی ہے۔ 

انہوں نے خبردار کیا کہ جوہری ہتھیار اب تک ایجاد ہونے والا سب سے زیادہ تباہ کن اسلحہ ہیں جس سے کرہ ارض پر تمام تر زندگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ آج ان ہتھیاروں کی طاقت، وسعت اور اخفا میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر کسی غلطی یا غلط فہمی کی بنیاد پر یہ ہتھیار چل گیا تو ناقابل تصور تباہی برپا ہو جائے گی

ان کا کہنا تھا کہ ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے گروہوں سے لے کر پوپ فرانسس، نوجوانوں اور ہیروشیما اور ناگاساکی کے متاثرین 'ہیباکوشا' تک سبھی امن کی دہائی دیتے ہوئے دنیا کے وجود کو لاحق خطرے پر قابو پانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

جنگ پر سرمایہ کاری

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہالی وڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم 'اوپین ہیمر' نے بھی دنیا کے کروڑوں لوگوں کے لیے مکمل جوہری تباہی کی تلخ حقیقت کو آشکار کیا ہے۔ انسانیت جوہری ہتھیاروں کے استعمال جیسے کسی اور واقعے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ 

جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ ہی اس نامعقول اور اپنی تباہی کے سامان سے ہمیشہ کے لیے نجات پانے کا واحد طریقہ ہے۔تاہم، تباہی کے دھانے سے واپس آنے کے مطالبات کے باوجود جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے بات چیت نہیں کر رہے۔ جنگی ہتھیاروں پر سرمایہ کاری امن کے ذرائع پر سرمایہ کاری سے کہیں بڑھ گئی ہے۔

مذاکرات اور اعتماد کا قیام

انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک سے اپیل کی کہ وہ ایسے ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کے عمل میں شفافیت لانے اور اعتماد کے قیام کے لیے مذاکرات شروع کریں۔ 

علاوہ ازیں، جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق بیان بازی بند کی جائے کہ ایسی دھمکیاں کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔

جن ممالک کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں انہیں جوہری تجربات کو روک دینا چاہیے۔ انہیں عہد کرنا ہو گا کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جس سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات پر جامع پابندی کے لیے 1996 کا معاہدہ (سی ٹی بی ٹی) کمزور ہوتا ہو۔ اس معاہدے کا اطلاق ترجیح ہونی چاہیے۔

وعدوں سے عمل تک

سیکرٹری جنرل نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کے معاہدے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ 

انہوں نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک کو فوری طور پر اتفاق کرنا چاہیے کہ ان میں سے کوئی بھی ان ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا۔ ان میں سے کسی ملک کو کسی بھی طرح کے حالات میں یہ ہتھیار استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ جوہری اسلحے کا خاتمہ کرنے سے متعلق وعدوں پر عمل ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے تحت ممالک کا جوابدہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اس معاہدے کی منظوری 50 سال قبل عمل میں آئی تھی اور یہ جوہری اسلحے کے حامل ممالک کی جانب سے ان ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے واحد معاہدہ ہے جس کی پابندی قانوناً لازمی ہے۔

جوہری ذخائر میں کمی کا مطالبہ

آخر میں انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں کمی لانے کے لیے کہتے ہوئے امریکہ اور روس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس اقدام میں پہل کریں اور 'نیو سٹارٹ' معاہدے پر مکمل عملدرآمد کے لیے دوبارہ مذاکرات کی راہ تلاش کریں۔ ان دونوں ممالک کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے ان سے 'نیو سٹارٹ' جیسا ایک اور معاہدہ کرنے کو بھی کہا۔

انہوں نے جوہری ہتھیار نہ رکھنے والے ممالک سے کہا کہ وہ بھی جوہری اسلحے کے عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنے ذمہ داریاں پوری کریں اور اس ضمن میں ہونے والی کوششوں میں تعاون کریں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کے پاس قائدانہ کردار ہے جسے دنیا میں پائی جانے والی تقسیم سے بالاتر ہو کر یہ کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے دنیا کے وجود کو لاحق خطرہ ناقابل قبول ہے۔