انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان میں خواتین کے حقوق غصب کرنے کا عمل جاری و ساری

ادارہ برائے مہاجرت، یو این ویمن، اور یونامہ کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں خواتین کو گرفتاری کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔
UNAMA
ادارہ برائے مہاجرت، یو این ویمن، اور یونامہ کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں خواتین کو گرفتاری کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔

افغانستان میں خواتین کے حقوق غصب کرنے کا عمل جاری و ساری

خواتین

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان حکام کی جانب سے ہر نیا حکم جاری ہونے پر افغان خواتین کو گرفتاری، ہراسانی اور مزید سزا کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

افغان خواتین کو درپیش حالات کے جائزے پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق نفاذ قانون کے اقدامات سے عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ان کے لیے بیرون خانہ سرگرمیوں میں شرکت مزید مشکل ہو گئی ہے۔ ملکی حکام نے اب تک 50 سے زیادہ ایسے قوانین متعارف کرائے ہیں جن سے خواتین کے حقوق اور وقار پر براہ راست زد پڑتی ہے۔

Tweet URL

اس جائزے کا اہتمام یو این ویمن، عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) نے کیا ہے جس میں 745 افغان خواتین سے بات چیت کی گئی تھی۔ 

اقوام متحدہ کے یہ تینوں ادارے طالبان کی موجودہ حکومت میں ہر تین ماہ کے بعد مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی افغان خواتین کے ساتھ ان کے حالات پر بات چیت کرتے ہیں۔

بڑھتا خوف

اکتوبر سے دسمبر 2023 تک کے حالات بیان کرتے ہوئے خواتین نے بتایا کہ انہیں گرفتاری اور پولیس حراست کے نتیجے میں طویل مدتی بدنامی سہنے کا خوف رہتا ہے۔ 

57 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ محرم (مرد نگہبان) کے بغیر گھر سے باہر نکلتے ہوئے خود کو غیرمحفوظ تصور کرتی ہیں۔ جب بھی کوئی نیا حکم نامہ جاری ہوتا ہے تو ان کی سلامتی کو لاحق خطرات اور اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق صرف ایک فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ان کا اپنے علاقے کی سطح پر فیصلہ سازی میں بہتر یا مکمل اثرورسوخ ہے۔

بے اختیاری

خواتین کے لیے مل بیٹھنے اور خیالات و تجربات کے اظہار، سماجی گروہوں کے قیام اور اہم معاملات میں شمولیت کے لیے محفوظ عوامی مقامات نہ ہونے سے فیصلہ سازی میں شرکت یا اس پر اثرانداز ہونے کے ذرائع نہیں رہے۔ 

گھر کے فیصلوں میں خواتین کا بہتر یا مکمل اختیار جنوری 2023 میں 90 فیصد تھا جو جنوری 2024 میں 32 فیصد رہ گیا۔ حقوق اور تعلیم و روزگار کے مواقع میں کمی کا نتیجہ ان کے گھریلو اختیارات پر بھی پڑا ہے۔

زیر تسلط

خواتین نے حکام کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بین النسلی و صنفی اثرات اور بچوں کے حوالے سے سماجی رویوں میں رجعتی تبدیلی کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ 

آئندہ امکانات کے بارے میں لڑکیوں کے تصورات اپنی اقدار اور مستقبل کے حوالے سے ان کی سمجھ بوجھ کو تبدیل کر رہے ہیں۔

بعض خواتین نے بتایا کہ لڑکے غیرشعوری طور پر اپنی ماؤں اور بہنوں کو سماجی و سیاسی طور پر مردوں کا ماتحت سمجھنے کے عادی ہو رہے ہیں اور ان میں یہ تصور تقویت پا رہا ہے کہ خواتین کو گھروں میں مردوں کا تابعدار بن کر رہنا چاہیے۔ 

عالمی برادری

رپورٹ کے مطابق، 32 فیصد خواتین نے بتایا کہ دنیا کو افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر تمام پابندیاں ختم ہونے کے بعد ہی طالبان حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ 25 فیصد خواتین نے کہا کہ اس معاملے میں چند مخصوص پابندیوں کا خاتمہ ضروری ہے جبکہ 28 فیصد کا کہنا تھا کہ دنیا طالبان حکومت کو کسی طور تسلیم نہ کرے۔

جولائی 2023 میں ایسے ہی سوالات پر 96 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ دنیا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے خواتین کے حقوق کی صورتحال میں بہتری کی شرط رکھے۔ بصورت دیگر اسے کسی طور تسلیم نہ کیا جائے۔

بہتری کا راستہ

جائزے میں شرکت کرنے والی بعض خواتین نے بعض ممالک کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوشش پر مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے ممالک افغانستان میں خواتین کے حقوق کے بحران کی شدت اور بین الاقوامی قوانین کی پامالیوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ 

بعض خواتین نے کہا کہ اگر عالمی برادری افغانستان کے لیے انسانی امداد کو خواتین کی زندگی بہتر بنانے اور انہیں مواقع کی فراہمی سے مشروط کرے تو حالات میں بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔