انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بموں کی گھن گرج میں سونے والے فلسطینی بچوں کے لیے لوری

فلسطینی نژاد ہسپانوی گلوکار مروان۔
Oliva Films
فلسطینی نژاد ہسپانوی گلوکار مروان۔

بموں کی گھن گرج میں سونے والے فلسطینی بچوں کے لیے لوری

امن اور سلامتی

فلسطینی نژاد ہسپانوی گلوکار مروان نے ایک نیا گیت تیار کیا ہے جسے وہ غزہ میں بمباری کا سامنا کرنے والے بچوں کے لیے لوری کہتے ہیں۔ مروان کا شمار سپین کے معروف و مقبول نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ فلسطینی لوگوں سے ان کا دیرینہ تعلق ہے۔ ان کے والد مقبوضہ مغربی علاقے میں واقع تلکرم پناہ گزین کیمپ میں 'انرا' کی خیمہ بستی میں پلے بڑھے تھے۔  

ان کے لکھے اس گیت کے بول کچھ یوں ہیں: 

"میں نے توپوں کی گھن گرج کا سامنا کیا، نرسری میں آگ دیکھی، لیکن میں قائم ہوں۔

میں نے مفلوج کر دینے والا خوف سہا، میں نے ہر ایک کو منہ موڑتے دیکھا، لیکن میں قائم ہوں۔" 

اکتوبر میں غزہ کی جنگ شروع ہونے سے چند روز کے بعد جب انہوں نے یہ گیت لکھا تو اس کے حقوق عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کی ہسپانوی کمیٹی کے لیے عطیات جمع کیے جا سکیں۔

یو این نیوز کی بیٹریز بیرل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انرا نے ہی ان کے والد کو زندہ رہنے میں مدد دی۔ وہ پناہ گزینوں کے کیمپ میں پیدا ہوئے تھے جہاں انہوں نے 18 سال کی عمر تک 'انرا' کے سکول میں تعلیم پائی۔ انرا نے انہیں خوراک، مدد اور تعلیم مہیا کی۔ اب بھی یہی ادارہ لاکھوں فلسطینیوں اور غزہ کے تمام لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔

مروان نے کہا کہ وہ اس کے لیے کم از کم یہی کچھ کر سکتے تھے۔ مسئلے کے سیاسی حل کے بغیر یہی کچھ ہو سکتا ہے کہ ان کے لیے اکٹھا ہوا جائے اور مدد پیش کی جائے۔

"فلسطین کے لیے ہنگامی لوری" میں ان لوگوں کے ساتھ ظالمانہ ناانصافیوں، حقوق سے محرومی اور عالمی برادری سے انہیں خارج رکھے جانے کا تذکرہ ہے۔ تاہم اس میں تواتر سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ 'وہ قائم ہیں'۔ 

مروان نے کہا کہ وہ نظرانداز کیے جانے، بمباری، بچوں پر مظالم اور اموات کے باوجود مشکل ترین حالات میں بھی فلسطینیوں کی مضبوطی اور آگے بڑھتے رہنے کی صلاحیت کو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔

مروان نے کئی مرتبہ مغربی کنارے کا دورہ کیا جہاں ان کے والد کے رشتہ دار اب بھی مقیم ہیں۔ انہوں نے تلکرم میں اپنے والد کے سکول کے سامنے بھی ایک نغمہ ریکارڈ کیا۔

'انرا' پر عائد کیے گئے الزامات کے بارے میں سوال پر انہوں نے سخت افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ادارے کو مسائل کا ذمہ دار یا دہشت گردی کا طرفدار قرار دینا ایک ایسی بات ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ انتہائی بیہودہ بات ہے۔ اس ادارے کا واحد مقصد مشکل ترین حالات میں فلسطینیوں کو مدد دینا اور ان کی زندگیوں کو باوقار بنانا ہے۔ 

مروان کے لیے یہی بات اہم ہے اور 'انرا' کی مدد کرنا ہی ان کا مقصد ہے۔ وہ 'انرا' کی حمایت پر اپنے خلاف یا خود 'انرا' کے خلاف تنقید سے پریشان نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے انرا کی مدد واپس لیے جانے کے باوجود وہ اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔ 

مروان کہتے ہیں کہ جو بھی انرا کو عطیات دینے میں متذبذب ہو اسے مفصل تحقیق کرنی چاہیے کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔ 1948 سے اب تک انرا کے بے عیب اور نمایاں کام کے بارے میں جانیں۔ یہ دیکھیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے اور ان کا واقعتاً صرف انرا پر انحصار ہے۔ یہ سیدھی سادہ بات ہے۔ ان لوگوں کے پاس انرا کے ذریعے حاصل ہونے والے وسائل کے سوا کچھ نہیں اور اس کے مالی وسائل کی معطلی ہولناک اور رسوا کن اقدام ہے۔

انرا کے سکول اب ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کے لیے عارضی پناہ گاہ کا کام دے رہے ہیں۔
© UNICEF/Eyad El Baba
انرا کے سکول اب ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کے لیے عارضی پناہ گاہ کا کام دے رہے ہیں۔

یہ صورت حال اسرائیل کی جانب سے انرا کے چند اہلکاروں پر 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے بعد پیدا ہوئی۔ الزامات سامنے آنے کے بعد انرا نے ان اہلکاروں کو معطل کر کے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔ 

انہیں امید ہے کہ ان کا گیت دنیا کو غزہ کی جنگ کے حالات سے نظریں ہٹانے نہیں دے گا۔ 

یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین میں انسانی حقوق روزانہ پامال کیے جاتے ہیں۔ یہ دو ممالک کے مابین روایتی جنگ نہیں جس میں ایک ملک دوسرے کے خلاف اپنا دفاع کرتا ہے۔

انہیں اس معاملے میں بین الاقوامی عدالتی مداخلت ہی واحد امید دکھائی دیتی ہے۔ 

مروان کے لیے "بین الاقوامی قانون کی کھلی پامالی" ہولناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسے مظالم کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قانونی طریقہ ہائے کار وضع کیے گئے تھے۔ تاہم عالمی قوانین کو ناکام بنایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے دفاع کے حق میں سب سے زیادہ باتیں کرنے والے ممالک بھی سب سے بڑھ کر اسرائیل کے اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں۔ تاہم یہ وہ ممالک ہیں جن کے پاس اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ طاقت ہے کیونکہ انہیں سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار کا حاصل ہے۔ 

وہ ذرائع ابلاغ میں اس جنگ کے حوالے سے آنے والی خبروں پر بھی کڑی تنقید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو حالات کے حقیقی رخ سے آگاہ ہونے کے لیے ٹویٹر، فلسطینی صحافیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس یا انسٹا گرام سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ 

مروان کہتے ہیں کہ فلسطین میں دن دہاڑے نسل کشی ہونے دی جا رہی ہے اور صحافت اس کا ارتکاب کرنے والوں کی معاون ہے۔ اس کا ادراک کرنا مشکل ہے۔ اس کے پیچھے لوگوں کے مفادات ہیں۔ مغربی ممالک کے مفادات کے علاوہ اس کی کوئی اور وجہ نہیں۔ اس کی کوئی اور وضاحت نہیں ہو سکتی۔ 

مروان سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل اور فلسطینیوں کے لیے پُرامن مستقبل 'بین الاقوامی عدالتی مداخلت' کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس وقت یہی امید کی ایک کرن ہے۔

میڈرڈ کے رینا صوفیا میوزیم میں سپین کی وزیر برائے امور نوجوانان و اطفال سیرا ریگو کی موجودگی میں یہ گیت پیش کرتے ہوئے مروان نے انرا کے لیے مالی وسائل کی معطلی کو دل شکن قرار دیا۔
UNRWA Spanish National Comitte
میڈرڈ کے رینا صوفیا میوزیم میں سپین کی وزیر برائے امور نوجوانان و اطفال سیرا ریگو کی موجودگی میں یہ گیت پیش کرتے ہوئے مروان نے انرا کے لیے مالی وسائل کی معطلی کو دل شکن قرار دیا۔