انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عراق و شام میں امریکی حملوں کے بعد عالمی امن پر سلامتی کونسل کا اجلاس

عالمی امن و سلامتی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کا ایک منظر۔
UN Photo/Evan Schneider
عالمی امن و سلامتی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کا ایک منظر۔

عراق و شام میں امریکی حملوں کے بعد عالمی امن پر سلامتی کونسل کا اجلاس

امن اور سلامتی

عراق اور شام میں امریکہ کے حملوں کے بعد روس کی درخواست پر طلب کیا گیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس جاری ہے جس میں علاقائی امن و سلامتی پر ان حملوں کے اثرات زیربحث آئیں گے۔

اقوام متحدہ کے شعبہ سیاسی امور کی سربراہ روزمیری ڈی کارلو نے اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے بحران سے شروع ہونے والی کشیدگی نے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔خطے میں روزانہ کشیدہ واقعات پیش آ رہے ہیں۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش بھی متعدد مرتبہ خبردار کر چکے ہیں کہ یہ تنازع پھیل سکتا ہے اور کوئی غلطی بڑے پیمانے پر جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے شعبہ سیاسی امور کی سربراہ روزمیری ڈی کارلو۔
UN Photo/Eskinder Debebe

بڑھتی کشیدگی

روزمیری ڈی کارلو نے کہا کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد شام اور عراق میں امریکہ کے فوجی مراکز پر تقریباً 165 حملے کیے گئے اور امریکہ نے بھی دونوں ممالک میں جوابی حملے کیے۔

28 جنوری کو شمال مشرقی اردن میں امریکہ کے فوجی اڈے پر کیے گئے ڈرون حملے میں تین اہلکار ہلاک اور 40 زخمی ہو گئے۔ 2 فروری کو امریکہ نےعراق اور شام میں مبینہ طور پر سرگرم ایران کے پاسداران انقلاب کی قدس فورس اور اس سے منسلک گروہوں کے ٹھکانوں پر 85 فضائی حملے کیے۔ 

امریکہ کا کہنا ہےکہ اس نے ان گروہوں کے مراکز، انٹیلی جنس کے ٹھکانوں، اسلحہ خانوں اور دیگر اہداف کو نشانہ بنایا اور وہ مشرق وسطیٰ یا دیگر علاقوں میں جنگ نہیں چاہتا۔ شام اور عراق نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں عام شہری بھی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔

امریکہ نے حالیہ دنوں برطانیہ کے ساتھ مل کر یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے جن کے بارے میں دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ ان جگہوں کو بحیرہ احمر میں جہازوں پر حملوں کے لیے استعمال میں لایا جا رہا تھا۔

سوموار کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس سے ایران، عراق، شام، امریکہ، برطانیہ، چین، اور روس کے نمائندوں نے خطاب کیا۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل سفیر عامر سعید ایراوانی۔
UN Photo/Evan Schneider

امریکی حملے غیرقانونی اور بلاجواز: ایران 

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل سفیر عامر سعید ایراوانی نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے عراق اور شام میں امریکہ کے حملوں کی سختی سے مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی فوجی کارروائی غیرقانونی، بلاجواز اور بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی پامالی ہے۔ انہوں نے یمن کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کے مشترکہ حملوں کی بھی مذمت کی۔ 

انہوں نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات کی بنیادی وجوہات سے توجہ ہٹانے کے لیے ایران کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہوتے ہوئے امریکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل میں ناکام رہا ہے۔ 

انہوں نے الزام عائد کیا کہ امریکہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے اور شام میں علیحدگی پسند گروہوں کو مدد دے رہا ہے۔ 

ایران کے سفیر نے امریکہ پر عراق میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں غیرقانونی سرگرمیوں کا الزام بھی عائد کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکہ اور نیٹو وہاں اپنی عسکری موجودگی کو ختم کرنے سے متعلق عراق کی حکومت کے فیصلے کا احترام کریں اور اپنی فوجیں ملک سے واپس بلائیں۔

اقوام متحدہ میں عراق کے نائب مستقبل سفیر عباس قدوم عبید الفطلاوی۔
UN Photo/Eskinder Debebe

سلامتی کونسل علاقائی سالمیت کو تحفظ دے: عراق

اقوام متحدہ میں عراق کے نائب مستقبل سفیر عباس قدوم عبید الفطلاوی نے کہا کہ مشرق کے تمام بحران باہم مربوط ہیں۔عراق خطے میں استحکام پیدا کرنے اور مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک میں اختلافات ختم کرانے کے لیے کڑی محنت کر رہا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے حملے اس کے ساتھ عراق کے باہمی تعلقات سے مطابقت نہیں رکھتے اور ان کا ملک لاحاصل و غیرمنطقی بہانوں سے اپنی سرزمین پر کیے جانے والے ہر حملے کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے۔

اقوام متحدہ میں شام کے مستقل سفیر قصیی الضحاک۔
UN Photo/Evan Schneider

امریکہ کے کھوکھلے بہانے: شام

اقوام متحدہ میں شام کے مستقل سفیر قصیی الضحاک نے کہا کہ اس اجلاس میں امریکہ کی جانب سے ان کے ملک پر حملوں کے حق میں کھوکھلے اور گمراہ کن بہانے سننے کو ملے جو وہ پہلے بھی اپنے متواتر حملوں کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ امریکہ اپنے حملوں کا جواز پیش کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر بالخصوص اس کی دفعہ 51 کی مسخ شدہ اور غلط تشریح کر رہا ہے۔ امریکہ کی غلط اور تباہ کن پالیسیاں ہی مشرق وسطیٰ میں تنازعات، تکالیف اور عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہیں۔ اس میں امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے قبضے اور فلسطینیوں کے خلاف مظالم پر اس کی غیرمشروط اور لامحدود حمایت بھی شامل ہے۔ 

الضحاک نےکہا کہ ایک کے بعد دوسری امریکی انتطامیہ نے سلامتی کونسل میں اپنی مستقل رکنیت کا غلط استعمال کیا ہے اور شام سمیت دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی چلی آئی ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل سفیر رابرٹ وڈ۔
UN Photo/Evan Schneider

دفاعی حق استعمال کرتے رہیں گے: امریکہ

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل سفیر رابرٹ وڈ نے کہا کہ 2 فروری کو عراق اور شام میں ان کے ملک کی جانب سےکیے گئے ضروری اور متناسب جوابی حملے دراصل ایران کے پاسداران انقلاب اور اس سے ملحقہ مسلح گروہوں کے خلاف تھے۔ امریکہ نے یہ حملے اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 51 کے تحت اپنا حق استعمال کرتے ہوئے کیے۔ 

انہوں نے کہا کہ 28 جنوری کو اس کی فوج کے تین ارکان کی ہلاکت اور بیسیوں کا زخمی ہونا تباہ کن تھا جو کہ ناقابل قبول ہے اور ایسے حملے جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ 

رابرٹ وڈ نے کہا کہ ان کا ملک کونسل کو تواتر سے لکھے گئے خطوط میں کہہ چکا ہے کہ امریکہ مستقبل میں اپنے شہریوں، اہلکاروں اور تنصیبات کو لاحق خطرات یا ان پر حملوں کا جواب دینے کے  لیے مزید اقدامات کرے گا۔ امریکہ نے بالاحتیاط منتخب کردہ اہداف کو نشانہ بنایا تاکہ شہریوں کے نقصان سے بچا جا سکے۔ یہ حملے ان اہداف کے امریکی اہلکاروں پر حملوں سے منسلک ہونے کی واضح اور ناقابل تردید شہادتوں کی بنیاد پر کیے گئے۔

انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ خطے میں مزید کشیدگی نہیں چاہتا جبکہ وہ غزہ میں جنگ کو روکنے اور کشیدگی میں کمی لانے کے لیے متحرک انداز میں کام کر رہا ہے۔ 

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ ایران کے ساتھ براہ راست جنگ کا خواہاں نہیں ہے تاہم ناقابل قبول حملوں کے خلاف اپنی افواج کا دفاع کرتا رہے گا۔

اقوام متحدہ میں برطانیہ کی مستقل سفیر باربرا وڈوارڈ۔
UN Photo/Evan Schneider

مشرق وسطیٰ کو داعش سے خطرہ: برطانیہ

اقوام متحدہ میں برطانیہ کی مستقل سفیر باربرا وڈوارڈ نے کہا کہ ان کا ملک عراق اور شام سمیت دنیا بھر میں امن و سلامتی برقرار رکھنے اور اسے تقویت دینے اور کشیدگی کے خاتمے کی تمام کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے اپنے دفاع اور اپنے فوجیوں اور فوجی اڈوں پر حملوں کا جواب دینےکے لیے امریکہ کے حق کی مکمل حمایت کی ہے۔ 

داعش ان ممالک اور پورے خطے کے  لیے بدستور سنگین خطرہ ہے اور اس نے حالیہ ہفتوں میں ایران پر بدترین حملہ کیا ہے۔ حملوں کی منصوبہ بندی، اس پر عملدرآمد اور اس کی ترغیب دینے کے لیے اس گروہ کی صلاحیت دنیا کو لاحق دہشت گردی کے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ داعش کے خلاف عالمی اتحاد کا واحد مقصد اس گروہ کا مقابلہ کرنا ہے اور برطانیہ بھی اس اتحاد کا حصہ ہے۔

باربرا وڈوارڈ نے کہا کہ برطانیہ داعش کے خطرے سے نمٹنے اور اس کا دوبارہ ظہور روکنے کے لیے عراق اور شام میں انسداد دہشت گردی کے شراکت داروں کے ساتھ کام جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہے۔

اقوام متحدہ میں چین کے مستقل سفیر ژانگ جن۔
UN Photo/Evan Schneider

مسائل کا کوئی عسکری حل نہیں: چین

اقوام متحدہ میں چین کے مستقل سفیر ژانگ جن نے کہا کہ امریکہ کے اقدامات سے مشرق وسطیٰ کے حالات میں نیا خلفشار پیدا ہو رہا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ عسکری اقدامات سے مشرق وسطیٰ کے مسائل کا حل نہیں نکل سکتا۔ امریکہ کے اقدمات سے حملوں اور جوابی حملوں کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ 

انہوں نے مسئلے کے فریقین سے پُرامن رہنے، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے، غیرقانونی عسکری کارروائیاں بند کرنے اور حالات کو بے قابو ہونے سے روکنے پر زور دیا۔

ژانگ جن نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کسی بھی پیش رفت کے لیے بنیادی شرط ہے اور اس پر عملدرآمد میں ناکامی ہی موجودہ حالات کا بنیادی سبب ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے مستقل سفیر ویزلے نیبینزیا۔
UN Photo/Eskinder Debebe

امریکی حملے غیرقانونی اور غیرذمہ دارانہ: روس

اقوام متحدہ میں روس کے مستقل سفیر ویزلے نیبینزیا نے کہا کہ خطے میں جاری بے مثال تشدد کے پس منظر میں امریکہ کے اقدامات غیرقانونی اور غیرذمہ دارانہ حملوں کی تازہ ترین مثال ہیں۔ 

بڑے پیمانے پر امریکہ کے فضائی حملوں سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پالیسی کی جارحانہ نوعیت اور بین الاقوامی قانون کے لیے اس کی مکمل توہین ایک مرتبہ پھر واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ ایسی کارروائیوں میں برطانیہ کی شمولیت سے دنیا کو کسی طرح کے 'بین الاقوامی اتحاد' کا دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ برطانوی حکومت نے اپنے 'بڑے بھائی' امریکہ کے یکسر اشتعال انگیز اقدامات کے لیے اپنی حمایت کا تاحال جواب نہیں دیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ امریکہ ایران سمیت مشرق وسطیٰ کے بڑے ممالک کو علاقائی تنازع میں دھکیلنے کی دانستہ کوشش کر رہا ہے۔

روس کے سفیر نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لاپرواہانہ حملوں کی غیرمشروط مذمت کرے۔ یہ حملے شام اور عراق کی خودمختاری کی پامالی ہیں۔

اجلاس کی مکمل کارروائی دیکھیے (ایک گھنٹہ تینتیس منٹ)