انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سرطان کے مریضوں میں 2050 تک 77 فیصد اضافے کا امکان

فرانس کے شہر لیآن میں سرطان کی ایک مریضہ کا علاج کیا جا رہا ہے۔
© WHO/Gilles Reboux
فرانس کے شہر لیآن میں سرطان کی ایک مریضہ کا علاج کیا جا رہا ہے۔

سرطان کے مریضوں میں 2050 تک 77 فیصد اضافے کا امکان

صحت

سرطان پر تحقیق کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے آر سی) نے بتایا ہے کہ رواں صدی کے وسط تک دنیا بھر میں اس بیماری کے مریضوں کی تعداد میں 77 فیصد اضافے کا امکان ہے۔

2050  میں سرطان کے مریضوں کی متوقع تعداد 35 ملین ہو گی جو کہ 2022 میں 20 ملین تھی۔ آبادی، عمر اور ترقی میں اضافے کے علاوہ تمباکو و شراب نوشی، موٹاپے اور فضائی آلودگی عام ہونے کو اس کا بنیادی سبب بتایا گیا ہے۔

Tweet URL

'آئی اے آر سی' اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا خصوصی شعبہ ہے جو سرطان پر تحقیق کے لیے عالمگیر تعاون کو فروغ دینے کا کام کرتا ہے۔

سرطان کا پھیلاؤ: متنوع رحجانات

ادارے کے تازہ ترین جائزے کے مطابق سرطان کے مریضوں میں سب سے زیادہ مطلق اضافہ دولت مند ممالک میں متوقع ہے جہاں 2050 تک ان کی تعداد 48 لاکھ تک بڑھ جائے گی۔ تاہم نچلے اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں نسبتی اعتبار سے سرطان کے پھیلاؤ میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گا جہاں شرح اموات میں تقریباً دو گنا اضافے کی توقع ہے۔

'آئی اے آر سی' کے یہ اندازے 185 ممالک میں 36 مختلف اقسام کے سرطان سے متعلق لیے گئے جائزے پر مبنی ہیں۔ انہیں 'ڈبلیو ایچ او' کی جانب سے لیے گئے 115 ممالک کے جائزے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر ممالک نے تمام لوگوں کو سرطان سے تحفظ دینے اور اس کے علاج کے لیے خاطرخواہ مالی وسائل مختص نہیں کیے۔ 

کینسر کی عام اقسام 

'آئی اے آر سی' کے مطابق 2022 میں عالمی سطح پر سرطان کے دو تہائی مریض اس کی دس اقسام سے متاثر ہوئے۔ اس بیماری سے ہونے والی دو تہائی اموات کا سبب بھی سرطان کی یہی اقسام تھیں۔

ان میں پھیپھڑوں کا کینسر سب سے زیادہ عام رہا جس کے 2.5 ملین نئے مریض سامنے آئے۔ سرطان کے تمام نئے مریضوں میں اس قسم سے متاثرہ افراد کی تعداد 12 فیصد رہی۔ اس بیماری سے موت کے منہ میں جانے والے 18.9 فیصد لوگ بھی پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔ 

خواتین میں چھاتی کا سرطان اس بیماری کی دوسری بڑی قسم رہی۔ دنیا بھر میں 23 لاکھ خواتین اس بیماری سے متاثر ہوئیں جو سرطان کے مجموعی مریضوں میں 11.6 فیصد تعداد ہے۔ تاہم مجموعی اموات میں چھاتی کے سرطان میں مبتلا مریضوں کی تعداد 6.9 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ 

اس کے بعد بڑی آنت، پراسٹیٹ اور معدے کا سرطان اس بیماری کی سب سے عام اقسام رہیں۔ بڑی آنت کا سرطان اس بیماری سے ہونے والی اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ جگر، چھاتی اور معدے کا سرطان اس کے بعد آتے ہیں۔

بیضہ دانی کا سرطان دنیا بھر میں اس بیماری کی آٹھویں عام ترین قسم رہی جبکہ اس بیماری سے ہونے والی اموات کا یہ نوواں بڑا سبب تھا۔ 25 ممالک میں یہ خواتین میں پائی جانے والی سرطان کی عام ترین قسم تھی جن میں بیشتر کا تعلق ذیلی صحارا افریقہ سے تھا۔

نائجیریا کے ایک ہسپتال میں سرطان کے ایک مریض کا جراحی سے علاج کیا جا رہا ہے۔
© WHO/Blink Media/Etinosa Yvonn
نائجیریا کے ایک ہسپتال میں سرطان کے ایک مریض کا جراحی سے علاج کیا جا رہا ہے۔

چھاتی کا سرطان

4  فروری کو سرطان کے خلاف عالمی دن سے قبل 'آئی اے آر سی' کے جاری کردہ ان تخمینوں میں اس بیماری کےعلاج سے متعلق بڑے پیمانے پر عدم مساوات کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ خواتین میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے یہ صورت حال خاص طور پر نمایاں ہے۔ 

ادارے کا کہنا ہے کہ 2050 تک امیر ممالک میں ہر 12 میں سے ایک خاتون کو زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر اس بیماری کا سامنا ہو گا اور ایسی 71 مریضوں میں سے ایک کی موت واقع ہو جائے گی۔ تاہم غریب ممالک میں ہر 27 میں سے ایک خاتون کو یہ بیماری لاحق ہو گی اور 48 میں سے ایک مریضہ اس سے جانبر نہیں ہو سکے گی۔ 

'آئی اے آر سی' میں سرطان کی نگرانی سے متعلق شعبے کی نائب سربراہ ڈاکٹر آئزابیلا سوئرجوماترم کا کہنا ہے کہ ایسی بیشتر خواتین کے لیے بیماری کی تاخیر سے تشخیص اور علاج تک رسائی میں عدم مساوات کے باعث موت کا خطرہ زیادہ ہو گا۔

علاج میں عدم مساوات

'ڈبلیو ایچ او' کے جائزے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سرطان کے علاج کے معاملے میں عالمی سطح پر واضح عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بہتر آمدنی والے ممالک میں پھیپھڑوں کے سرطان کے علاج کو طبی فوائد کے پیکیج میں شامل کیے جانے کا امکان غریب ممالک کے مقابلے میں سات گنا زیادہ ہوتا ہے۔ 

'ڈبلیو ایچ او' میں غیرمتعدی بیماریوں کے شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر بینٹے مکلسن کا کہنا ہے کہ ادارہ 75 سے زیادہ ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مل کر تمام لوگوں کے لیے اس بیماری کا علاج ممکن بنانے سے متعلق پالیسیوں کی تیاری، ان کے لیے مالی وسائل کی فراہمی اور ان پر عملدرآمد میں مدد دے رہا ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے۔