انسانی کہانیاں عالمی تناظر
 سیلاب سے دیہی خواتین غیرمتناسب طور پر متاثر ہوئیں جنہیں امداد اور خدمات تک مساوی رسائی دینے کے اقدامات کیے گئے۔

پاکستان: 2022 کے طوفانی سیلاب کے 13 لاکھ متاثرین اب بھی بے گھر

Courtesy: Lok Sujag Pakistan
سیلاب سے دیہی خواتین غیرمتناسب طور پر متاثر ہوئیں جنہیں امداد اور خدمات تک مساوی رسائی دینے کے اقدامات کیے گئے۔

پاکستان: 2022 کے طوفانی سیلاب کے 13 لاکھ متاثرین اب بھی بے گھر

انسانی امداد

پاکستان میں سال 2022 میں آنے والے سیلاب کے بعد اب تک کیے گئے امدادی اقدامات سے متاثرین کی بڑی تعداد نے استفادہ کیا ہے۔ تاہم 16 لاکھ افراد کو اب بھی مدد درکار ہے اور 13 لاکھ لوگ تاحال بے گھر ہیں۔

ستمبر 2022 سے اکتوبر 2023 تک 83 فیصد سیلاب متاثرین نے بنیادی نوعیت کی کم از کم ایک مدد تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ مدد تعلیم، غذائی تحفظ و زراعت، صحت، غذائیت، تحفظ، پناہ و غیرغذائی اشیا، پانی، نکاسی آب اور صفائی کے شعبوں میں فراہم کی گئی۔

سیلاب سے تقریباً ڈیڑھ سال بعد بھی صوبہ سندھ اور بلوچستان میں تقریباً 40 لاکھ بچوں کو صاف پانی تک مکمل رسائی نہیں ہے۔ اسی طرح پانچ لاکھ سے زیادہ گھرانے نکاسی آب کے انتظام سے محروم ہیں۔ 

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر درکار تھے جن میں سے اب تک 58 کروڑ 70 لاکھ ڈالر مہیا ہو چکے ہیں۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں متواتر قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ شدید بارشوں، سیلاب اور سخت گرمی کے باعث بہت سے لوگ مختصر عرصہ میں کئی مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ ایسے حالات میں بڑے پیمانے پر انسانی اور سماجی و معاشی نقصان ہو رہا ہے جس سے خاص طور پر خواتین، بچوں، معمر اور معذور افراد کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

پاکستان کے سیلاب زدہ علاقے میں سے کئی اب بھی زیر آب ہیں۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan

سیلاب کی تباہ کاریاں

جون اور اگست 2022 کے درمیان ملک بھر میں شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے مجموعی طور پر 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ ان میں 2 کروڑ 6 لاکھ کو زندگی کے تحفظ کے لیے مدد کی ضرورت رہی جن میں نصف تعداد بچوں کی تھی۔ صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیلاب سے بری طرح متاثرہ 34 اضلاع میں 79 لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان میں 6 لاکھ 64 ہزار افراد کو امدادی کیمپوں اور غیررسمی رہائش گاہوں میں منتقل ہونا پڑا۔ 

اس آفت میں ملک کا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا جہاں انسانی زندگیوں، املاک، زراعت اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ حکومت پاکستان نے 84 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔ ملک کے جنوبی اور وسطی علاقوں میں سیلاب اور اس کے اثرات کی شدت سب سے زیادہ رہی۔ سیلاب سے صوبہ سندھ کا 70 فیصد حصہ متاثر ہوا اور اس آفت نے سب سے زیادہ معاشی نقصان بھی اسی صوبے کو پہنچایا۔ 

پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق: 

  • سیلاب سے مجموعی طور پر 23 لاکھ گھر تباہ ہوئے یا انہیں نقصان پہنچا۔ 
  • 44 لاکھ ایکڑ رقبے پر فصلیں سیلاب برد ہو گئیں۔ 
  • 8 لاکھ مویشیوں کی ہلاکت ہوئی۔ 
  • 30 ہزار سے زیادہ سکول اور 2 ہزار طبی مراکز تباہ ہوئے یا انہیں نقصان پہنچا۔
  • 80 لاکھ لوگ غربت کا شکار ہو گئے۔ 
سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والی امداد اور اسے استعمال کرنے والے ادارے۔

امدادی اقدامات 

سیلاب سے بری طرح متاثرہ 34 اضلاع میں 95 لاکھ لوگوں کو ہنگامی نوعیت کی مدد درکار تھی۔ 

امدادی مقاصد کے لیے اب تک موصول ہونے والے وسائل سات اہم شعبوں میں لوگوں کی مدد اور بحالی پر خرچ ہوئے۔ ان وسائل کی بدولت زراعت وغذائی تحفظ، صحت، پناہ و غیرغذائی اشیا کی فراہمی کے حوالے سے امدادی اہداف پورے کر لیے گئے۔ تعلیم، غذائیت، تحفظ اور پانی، نکاسی آب و صفائی کے شعبوں میں تاحال مزید وسائل کی ضرورت ہے۔ 

سیلاب کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کی دو تہائی تعداد اپنے گھروں کو واپس آ چکی ہے، تاہم سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تقریباً 13 لاکھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس اپنے تباہ شدہ گھروں کی بحالی کے لیے وسائل نہیں اور وہ بدستور خیموں اور عارضی رہائش گاہوں میں مقیم ہیں۔ ان میں نو لاکھ لوگوں کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے جنہیں صاف پانی کی قلت، طبی خدمات تک عدم رسائی، بڑے پیمانے پر غذائی عدم تحفظ اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔

50 فیصد گھرانوں کو موسم سرما کے لیے امداد کی ضروت ہے جبکہ سیلاب سے متاثرہ تمام علاقوں میں تقریباً 15 لاکھ بچے کسی نہ کسی درجے کی غذائی قلت سے دوچار ہیں۔

سیلاب نے پاکستان میں زرعی رقبوں اور زراعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan

امدادی اداروں کا کردار

سیلاب متاثرین کی امداد میں حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ کے اداروں، امدادی کرداروں، رکن ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی مدد حاصل رہی۔ 

282 قومی اور 60 بین الاقوامی غیرسرکاری اداروں، انٹرنیشنل ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ موومنٹ اور 16 حکومتی اداروں نے بھی اس میں حصہ ڈالا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی سول سوسائٹی، مقامی لوگ، دینی مدرسے اور عام لوگ انفرادی حیثیت میں بھی مدد پہنچانے کے لیے متحرک رہے۔ انہوں نے متاثرین کی تلاش اور ان کی جان بچانے، لوگوں کو محفوظ مقامات پر لے جانے اور انہیں خوراک اور دیگر امداد کی فراہمی ممکن بنائی۔ 

حکومت نے سیلاب سے متاثرہ انتہائی غیرمحفوط 28 لاکھ لوگوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے 70 ارب روپے کی نقد امداد مہیا کی۔ اس سلسلے میں حکومت کو ورلڈ بینک کا تعاون بھی حاصل رہا۔

پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقے جہاں امدادی سرگرمیاں سرانجام پائیں۔

زراعت اور لائیو سٹاک کی بحالی

پاکستان کی معیشت میں زرعی شعبے کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا زیادہ نقصان بھی زراعت اور اس سے وابستہ لوگوں کو ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ امدادی سرگرمیوں میں زرعی شعبے اور لائیو سٹاک کی بحالی پر خاص توجہ مرکوز رکھی گئی۔ 

اس ضمن میں 79 اضلاع میں زرعی شعبے سے وابستہ 92 لاکھ لوگوں کو امداد اور خدمات فراہم کی گئیں۔ 12 لاکھ کسانوں کو موسم سرما اور گرما کی آئندہ فصلیں بونے کے لیے زرعی مداخل مہیا کیے گئے۔ 480,000 سے زیادہ لوگوں کو مویشیوں کے علاج معالجے بشمول انہیں حفاظتی ٹیکے لگوانے اور جسمانی کیڑوں کا خاتمہ کرنے کے لیے مدد دی گئی۔ علاوہ ازیں، 65 ہزار مویشی بان گھرانوں کو مویشیوں کے لیے چارہ مہیا کیا گیا۔ 

143,000 لوگوں کو آبپاشی کے لیے کھالے پختہ کرنے کے لیے نقد امداد دی گئی۔ امدادی اداروں کے تخمینے کے مطابق زرعی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے کسانوں کو کھیتی باڑی کے آلات کی فراہمی، پانی کے کھالوں کی مرمت، مویشیوں کے لیے حفاظتی ٹیکوں اور ان کے لیے پناہ گاہوں کی تعمیر اور چارے کی فراہمی کے لیے تاحال مزید مدد درکار ہے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 13 لاکھ لوگ اب بھی خیموں اور عارضی رہائش گاہوں میں مقیم ہیں۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan

جنسی استحصال سے تحفظ اور صنفی مساوات

'اوچا' کے مطابق سیلاب متاثرین کے لیے امدادی کارروائیوں میں لوگوں کی فوری ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ان اقدامات کے دور رس فوائد کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ متاثرین کو تحفظ زندگی کے لیے مدد کی فراہمی کے ساتھ ان کی جلد از جلد بحالی کے لیے ضلعی سطح پر سرکاری حکام کو تربیت دی گئی اور خود متاثرین کو بھی بحالی کی حکمت عملی میں شریک کیا گیا۔ 

امدادی اداروں اور کارکنوں نے تمام امدادی سرگرمیوں میں صنفی مساوات اور شمولیت کو ترجیح بنایا۔ اس میں خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کو خدمات اور مدد تک مساوی رسائی دینے کے اقدامات کیے گئے۔ علاوہ ازیں، ٹرانس جینڈر، جسمانی معذور اور معمر افراد بھی امدادی اقدامات میں ترجیح رہے۔ 

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جنسی استحصال اور زیادتی سے تحفظ کے لیے ایک بین الاداری نیٹ ورک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ضمن میں ایسے واقعات کی نشاندہی، ان کی روک تھام اور ممکنہ متاثرین کو تحفظ دینے کے اقدامات کیے گئے۔ اس مقصد کے لیے امدادی کارکنوں کے لیے تربیتی پروگراموں کا انعقاد بھی عمل میں لایا گیا۔

سیلاب کی تباہ کاریوں سے 23 لاکھ بچے براہ راست متاثر ہوئے۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan

سیلاب سے متاثرہ بچوں کا تحفظ

سیلاب کی تباہ کاریوں سے 23 لاکھ بچے براہ راست متاثر ہوئے۔ امدادی سرگرمیوں میں انہیں تحفظ دینے کے ترجیحی اقدامات کیے گئے۔ بچوں کے لیے غذائیت بھری خوراک اور صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ ان کی ذہنی و نفسیاتی صحت کو برقرار رکھنے یا بحال کرنے کے لیے خصوصی اقدام (ایم ایچ پی ایس ایس) شروع کیا گیا۔ بچوں کو لاحق خطرات کی نشاندہی، اس بارے میں اطلاع دینے اور ان کے تحفظ کے لیے درکار خدمات کی فراہمی کے مربوط طریقہ کار اپنائے گئے۔ ملک بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کے تحفط کے لیے 2,600 امدادی کارکنوں (1,129 خواتین اور 1,497 مرد) کو تربیت دی گئی۔ 

'اوچا' کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر کامیاب امدادی اقدامات کے باوجود متنوع نوعیت کے مسائل نے امدادی شعبے میں موثر، مشمولہ اور بامقصد ارتباط کی متواتر ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کے زیرقیادت ٹیم 25-2024 کے امدادی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے اسے ترقیاتی اقدامات اور صلاحیتوں میں اضافے سے جوڑنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ 

ادارے کا کہنا ہے کہ ملک میں موسمیاتی آفات کے نقصانات سے طویل مدتی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کے نظام کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے تاکہ مستقبل میں آفات سے انسانی نقصان کو کم سے کم رکھا جا سکے۔

سیلاب کے بعد تاحال بے گھر 9 لاکھ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں رہا۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan