انسانی کہانیاں عالمی تناظر

موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت کے لیے وسائل کی کمی دور کرنا اہم

معدنی ایندھن کے استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی انڈیا کے شہروں میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔
Unsplash/Hassan Afridhi
معدنی ایندھن کے استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی انڈیا کے شہروں میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت کے لیے وسائل کی کمی دور کرنا اہم

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ای پی) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور اس سے لاحق خطرات سے نمٹنے کی فوری ضرورت کے باوجود موسمیاتی موافقت پر پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے کے عمل میں سست روی مالیاتی وسائل کی فراہمی، منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد سمیت تمام محاذوں پر دیکھی جا سکتی ہے جس کے موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک کے لیے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

Tweet URL

یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی سالانہ موسمیاتی کانفرنس 'کاپ 28' سے پہلے جاری کی گئی ہے جو 30 نومبر تا 12 دسمبر دبئی، متحدہ عرب امارات میں منعقد ہو گی۔ 

اس میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی موافقت کی کوششوں کے لیے درکار اور دستیاب مالی وسائل کے درمیان فرق پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔

رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے کے لیے درکار مالیاتی ضروریات اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر دستیاب مالیاتی وسائل سے 10 تا 18 گنا زیادہ ہیں۔ یہ مقدار پچھلے تخمینوں سے بھی 50 فیصد زیادہ ہے۔

وسائل اور بے عملی

'یو این ای پی' نے خبردار کیا ہے کہ دنیا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس ضمن میں نہ تو مناسب سرمایہ کاری کی گئی ہے اور نہ ہی ضروری منصوبہ بندی ہوئی جس کے باعث سبھی خطرے میں ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس رپورٹ کے نتائج پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ موافقت کے شعبے میں خلا پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ "دنیا کو یہ فرق ختم کرنے اور موسمیاتی انصاف کے وعدے کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔"

موجودہ دہائی کے دوران ترقی پذیر ممالک کے لیے موافقت کی سالانہ لاگت کا تخمینہ 215 بلین ڈالر سے 387 بلین ڈالر تک ہے اور 2050 تک اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

وعدہ فردا 

گلاسگو میں 'کاپ 26' کے موقع پر موسمیاتی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے کے اقدامات میں مالی مدد کی فراہمی کے لیے 2025 تک سالانہ 40 بلین ڈالر میں اضافے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود، 2021 میں ترقی پذیر ممالک کے لیے کثیرجہتی اور دو طرفہ موافقت سے متعلق مالی مدد 15 فیصد کم ہو کر 21 بلین ڈالر تک آ گئی۔ 

اس طرح موافقتی اقدامات کے لیے مالی وسائل ضرورت اور ان کی دستیابی کے درمیان سالانہ فرق اب 194 تا 366 بلین ڈالر ہو گیا ہے۔

کاربن کے اخراج پر ٹیکس

کاربن کے اخراج میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے کے اقدامات کی سست روی کے باعث آنے والی دہائیوں کے دوران اس میں مزید تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔

رپورٹ میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر 55 ممالک میں اس سے ہونے والے سالانہ نقصان کا تخمینہ 500 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی خاطر وسائل جمع کرنے کے لیے نقصان و تباہی کے فنڈ کو فعال کرنا ایک اہم اقدام ہو گا لیکن اس میں کچھ مشکلات بھی پیش آئیں گی۔ اسی طرح، سرمایہ کاری کی مطلوبہ سطح تک پہنچنے کے لیے اس فنڈ کے حوالے سے اختراعی طریقوں سے کام لینا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ کاربن کے بڑے پیمانے پر اخراج اور آلودگی پھیلانے کے ذمہ داروں سے ٹیکس کی وصولی اس معاملے میں سرمایہ کاری کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں، اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اندرون ملک کیے جانے والے اخراجات اور بین الاقوامی اور نجی شعبے کی مالی اعانت بھی اہم ذرائع ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مصنفین نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے پُرعزم موافقتی اقدامات کی وکالت کی ہے۔ کم آمدنی والے ممالک اور پسماندہ گروہوں کے لیے اس کی خاص اہمیت ہے۔ ایسے دیگر اقدامات میں ترسیلات زر، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے موزوں مالیاتی وسائل کی فراہمی، مالیاتی لین دین کو کم کاربن اور ماحولیاتی اعتبار سے مضبوط ترقی کے طریقوں کی طرف منتقل کرنا اور عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات کا نفاذ شامل ہیں۔