انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ کے ہسپتالوں میں صورتحال انتہائی نازک: یو این امدادی ادارے

میزائل حملے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو فوری طبی امداد کے لیے خان یونس کے نصر ہسپتال لایا جا رہا ہے۔
© WHO
میزائل حملے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو فوری طبی امداد کے لیے خان یونس کے نصر ہسپتال لایا جا رہا ہے۔

غزہ کے ہسپتالوں میں صورتحال انتہائی نازک: یو این امدادی ادارے

امن اور سلامتی

اسرائیل۔فلسطین تنازع چوتھے ہفتے میں داخل ہونے کے بعد غزہ پر حملوں میں شدت آ گئی ہے جہاں ہسپتال بھی بمباری کی زد میں آئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ مریضوں اور زخمیوں کی نازک حالت کے پیش نظر ہسپتالوں سے انخلا ممکن نہیں۔

اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں زمینی حملہ شروع کر رکھا ہے جس سے پہلے طبی مراکز کو خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم مریض اور عملہ بدستور ہسپتالوں میں موجود ہیں۔

Tweet URL

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر 'او سی ایچ اے' نے بتایا ہے کہ غزہ شہر کے شفا و قدس ہسپتال اور شمالی غزہ میں قائم انڈونیشین ہسپتالوں پر بمباری کی گئی ہے۔

انخلا 'ناممکن'

'او سی ایچ اے' کے مطابق غزہ شہر کے ہسپتالوں اور دیگر جگہوں میں 117,000 بے گھر لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے جنہیں علاقہ خالی کرنے کا متواتر حکم دیا جا رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر بتایا ہے کہ مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے بغیر ہسپتالوں سے انخلا ناممکن ہے۔

امدادی کارروائیاں جاری 

جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ایف پی اے' نے شفا ہسپتال کے عملے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ طبی مراکز میں سازوسامان اور بجلی کی قلت کے باعث حاملہ خواتین کو بے ہوش کیے بغیر آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں بعض اوقات ڈاکٹروں کو مرنے والی ماؤں کے بچوں کی قبل ازوقت ڈلیوری کرنا پڑتی ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'انرا' نے کہا ہے کہ غزہ میں اس کے امدادی کارکن 600,000 سے زیادہ لوگوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں جنہوں نے ادارے کے مراکز میں پناہ لے رکھی ہے۔ تاہم یہ پناہ گاہیں اب گنجائش سے تین گنا زیادہ بھر چکی ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ یہ امدادی کارکن اس تاریک ترین وقت میں انسانیت کا چہرہ ہیں۔ 

ادارے نے غزہ میں اب تک ہلاک ہونے والے اپنے 59 کارکنوں کی یاد میں اتوار کو ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے 'انرا' کے کارکنوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہیں مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

اموات میں متواتر اضافہ

غزہ میں حماس کی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد اتوار کی شام تک غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 8,000 سے تجازو کر گئی تھی۔

'او سی ایچ اے' نے اطلاع دی ہے کہ فلسطینی مسلح گروہوں کی جانب سے اسرائیل کے شہروں اور قصبوں پر اندھا دھند راکٹ حملے گزشتہ چوبیس گھنٹے بھی جاری رہے تاہم ان میں کسی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق غیرملکیوں اور تقریباً 30 بچوں سمیت 239 اسرائیلی غزہ میں یرغمال ہیں اور 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد 40 افراد بدستور لاپتہ ہیں۔ ان حملوں میں 1,400 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ 

اقوام متحدہ نے یرغمالیوں کی فوری اور غیرمشروط رہائی کا متواتر مطالبہ کیا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ شہریوں کو ہلاک، زخمی اور اغوا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

غزہ میں اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہونے والوں کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کی جا رہی ہے۔
WHO
غزہ میں اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہونے والوں کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کی جا رہی ہے۔

مزید امداد کی ضرورت

پانی، خوراک اور طبی سازوسامان لے کر کم از کم 33 ٹرک اتوار کو مصر سے رفح کی سرحد کے راستے غزہ میں داخل ہوئے۔ یہ 21 اکتوبر کو پہلی مدد آنے کے بعد اب تک کا سب سے بڑا امدادی قافلہ ہے۔

'او سی ایچ اے' کا کہنا ہے کہ اگرچہ مدد میں اضافہ خوش آئند ہے تاہم انسانی حالات کو مزید بگاڑ سے بچانے کے لیے باقاعدہ طور سے بڑے پیمانے پر مدد جاری رہنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں میں بے چینی نہ پھیلے۔ 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں سے پہلے روزانہ قریباً 500 ٹرک غزہ آتے تھے۔

'او سی ایچ اے' نے غزہ میں ایندھن کی فراہمی پر زور دیا ہے جسے علاقے میں لانے کی تاحال اجازت نہیں دی گئی۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں طبی مشینوں اور پانی کی فراہمی و نکاسی آب کی تنصیبات کو چلانے کے لیے ایندھن کی فوری ضرورت ہے۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ہزاروں مایوس لوگوں نے 'انرا' اور 'ڈبلیو ایف پی' کے گوداموں پر دھاوا بول کر آٹا، صحت و صفائی کا سامان اور دیگر اشیا لوٹ لی تھیں۔اسی دوران مواصلاتی رابطے منقطع ہونے سے غزہ کے لوگ ایک دوسرے اور پوری دنیا سے کٹ کر رہ گئے تھے۔ 

'انرا' کی کارروائیوں کے ڈائریکٹر ٹام وائٹ نے اسے تشویش ناک علامت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ کی کڑی ناکہ بندی اور تین ہفتوں سے جاری جنگ کے باعث علاقے میں نظم و نسق ختم ہو رہا ہے۔