انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ محاصرہ: ضرورت مندوں کا اقوام متحدہ کے گوداموں پر دھاوا

مصر کے شہر الیگزینڈریا میں غزہ کے لوگوں کے لیے تیارشدہ کھانے ٹرک پر لادے جا رہے ہیں۔
© WFP/Amira Moussa
مصر کے شہر الیگزینڈریا میں غزہ کے لوگوں کے لیے تیارشدہ کھانے ٹرک پر لادے جا رہے ہیں۔

غزہ محاصرہ: ضرورت مندوں کا اقوام متحدہ کے گوداموں پر دھاوا

انسانی امداد

غزہ میں ہزاروں مایوس لوگ اقوام متحدہ کے گوداموں اور امداد کی تقسیم کے مراکز پر دھاوا بول کر آٹا، صحت و صفائی کاسامان اور بنیادی ضرورت کی اشیا لے گئے ہیں جبکہ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ علاقے میں نظم و نسق ختم ہو رہا ہے۔

یہ واقعات زیرمحاصرہ علاقے میں 24 گھنٹے تک مواصلاتی رابطہ منقطع رہنے اور لوگوں تک رسائی میں مشکلات کے بعد پیش آئے ہیں۔

Tweet URL

'ڈبلیو ایف پی' نے بتایا ہے کہ اس کے جس گودام پر لوگوں نے دھاوا بولا وہاں 80 ٹن خوراک جمع تھی جس میں زیادہ تر کھانے پینے کی ڈبہ بند اشیا، گندم کا آٹا اور سورج مکھی کا تیل شامل ہے۔ یہ سامان بے گھر خاندانوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔

اسی طرح دیر البلح میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'انرا' کے گودام سے بھی امدادی سامان لوٹ لیا گیا ہے۔ 

خوف اور مایوسی

کچھ دیر پہلے غزہ میں 'انرا' کی ٹیموں نے بتایا ہے کہ علاقے میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی رابطے بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ 

غزہ کی پٹی میں 'انرا' کے امور کے ڈائریکٹر تھامس وائٹ نے کہا ہے کہ امدادی مراکز پر لوٹ مار کے واقعات تین ہفتوں سے جاری جنگ اور علاقے کی کڑی ناکہ بندی کے بعد نظم و نسق کے ختم ہونے کی تشویش ناک علامت ہیں۔ لوگ خوف، پریشانی اور مایوسی کا شکار ہیں اور مواصلاتی رابطے منقطع ہو جانے کے باعث تناؤ اور خوف میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اب لوگ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا اور وہ غزہ میں اپنے خاندانوں اور دنیا بھر میں لوگوں سے کٹ گئے ہیں۔ 

جنوبی غزہ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی سے لوگوں پر شدید دباؤ آیا ہے اور بنیادی خدمات پر بوجھ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ بعض خاندان ایسے ہیں جن کے گھر میں تقریباً 50 رشتہ داروں نے پناہ لے رکھی ہے۔

مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کے باعث 28 اکتوبر کو غزہ میں کوئی قافلہ نہیں آ سکا۔ دکانوں پر چیزیں ختم ہو رہی ہیں اور مصر سے غزہ کی پٹی میں آنے والی امداد ناکافی ہے۔ بقا کے لیے ہی لوگوں کی ضروریات بے پایاں ہیں اور انہیں جو مدد مل رہی ہے وہ بہت قلیل اور بے قاعدہ ہے۔ 

تھامس وائٹ کے مطابق ایک ہفتے میں 80 سے کچھ زیادہ ٹرک ہی غزہ میں آ سکے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ محدود پیمانے پر آنے والی مدد، سست رو طریقہ کار، کڑے معائنوں، ناکافی سامان اور ایندھن پر پابندی کے باعث امدادی قافلوں کا موجودہ نظام کامیاب نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں امدادی سامان کی باقاعدہ اور متواتر فراہمی ضروری ہے تاکہ لوگوں کی ضروریات پوری کی جا سکیں علاقے میں تناؤ اور پریشانی میں اضافے کے بعد یہ ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔

ناکافی مدد

فلسطین کے لیے 'ڈبلیو ایف پی' کے نمائندے اور ڈائریکٹر سمیر عبدالجبار نے بھی اسی بات کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں امدادی گوداموں پر لوگوں کا دھاوا اس بات کی علامت ہے کہ وہ امید کھو رہے ہیں اور مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ لوگ تین ہفتے سے بھوکے، تنہا اور تشدد و بے پایاں مشکلات سے بری طرح متاثرہ ہیں۔ ضرورت مند لوگوں کو خوراک، پانی اور بنیادی ضروریات محفوظ و موثر طور سے پہنچانے کے لیے جنگ میں توقف کی ضرورت ہے اور امداد کی فراہمی رواں رکھنا ہو گی۔ 

'ڈبلیو ایف پی' نے کہا ہے کہ رابطوں کی کمی اور ان کے خاتمے سے امدادی کارروائیاں بند ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ مزید ایندھن فراہم نہ کیا گیا تو ادارے کے زیراہتمام چلنے والےتنور کام نہیں کر سکیں گے اور ضرورت مند لوگوں تک خوراک پہنچانا ممکن نہیں رہے گا۔

ادارے نے بتایا ہے کہ وہ دس لاکھ لوگوں کو خوراک مہیا کرنا چاہتا ہے جو اس وقت بھوکے ہیں اور اس مقصد کے لیے غزہ میں روزانہ 40 امدادی ٹرک بھیجے جانے کی ضرورت ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں امدادی سرگرمیاں سرانجام دینے والے اقوام متحدہ کے ادارے ’انرا‘ کے کارکن غزہ میں جاں بحق ہونے والے اپنے ساتھیوں کی یاد میں اردن کے شہر اومان میں اکٹھے ہیں۔
UNRWA/Shafiq Fahed

امدادی کارکنوں کو خراج عقیدت

اتوار کو اردن کے دارالحکومت عمان میں 'انرا' کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی کی قیادت میں ادارے کے ان 59 ارکان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جو 7 اکتوبر کو اس بحران کے آغاز سے اب تک غزہ میں فرائض کی انجام دہی کے دوران جانیں دے چکے ہیں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ سے ہر گھنٹے ناقابل بیان مصائب کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور 'انرا' کے لیے ہر دن تاریک ہوتا ہے اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ہلاکتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔