انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دنیا کا ہر دسواں بچہ قبل از وقت پیدا ہوتا ہے: یو این ادارے

قبل از وقت پیدا ہونے والا بچہ یمن کے ایک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہے۔
© UNICEF/Ali Bahumaid
قبل از وقت پیدا ہونے والا بچہ یمن کے ایک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہے۔

دنیا کا ہر دسواں بچہ قبل از وقت پیدا ہوتا ہے: یو این ادارے

صحت

سال 2020 میں ایک کروڑ 34 لاکھ بچے قبل از وقت پیدا ہوئے جن میں سے 10 لاکھ طبی پیچیدگیوں کے باعث پیدائش کے فوری بعد انتقال کر گئے۔

یہ تعداد اُس سال دنیا بھر میں پیدا ہونے والے بچوں کا تقریباً 10 فیصد ہے جنہوں نے زچگی کے مقررہ وقت سے 37 ہفتے پہلے جنم لیا۔ طبی ماہرین نے ماؤں کی کمزور صحت اور غذائی قلت کو اس کا بڑا سبب قرار دیا ہے۔

Tweet URL

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کا کہنا ہے کہ قبل ازوقت پیدائش ابتدائی عمر میں بچوں کی اموات کا سب سے بڑا سبب ہے اور اسی لیے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی نگہداشت اور ایسی اموات کی روک تھام سے متعلق کوششوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ 

اس معاملے میں ماؤں کی صحت اور غذائیت پر توجہ دینا خاص اہمیت رکھتا ہے تاکہ بچوں کی بقا کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔ 

ان اداروں کا کہنا ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے جن بچوں کی جان بچا لی جاتی ہے انہیں آئندہ زندگی میں بڑی بیماریوں، جسمانی معذوری اور بڑھوتری میں تاخیر کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے اور بڑوں کو لاحق ہونے والی بیماریوں جیسا کہ زیابیطس اور امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ 

ماؤں کی صحت کے لیے خطرات 

ڈبلیو ایچ او میں زچہ بچہ، بڑے بچوں اور بالغوں کی صحت اور عمر رسیدگی کے شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر انشو بینرجی نے کہا ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو ایسی طبی پیچیدگیوں کا خدشہ خاص طور پر زیادہ ہوتا ہے جن کے نتیجے میں زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ 

ماؤں کی صحت کے حوالے سے دیگر بڑے رحجانات کی طرح گزشتہ دہائی کے دوران دنیا کے کسی خطے میں قبل از وقت پیدائش کی شرح میں نمایاں کمی نہیں آ سکی۔ 2010 اور 2020 کے درمیانی عرصہ میں قبل از وقت پیدائش میں کمی کی عالمگیر سالانہ شرح محض 1.14 فیصد رہی۔

عالمگیر تخمینے

'2010 سے جاری رحجانات کی روشنی میں 2020 میں قبل از وقت پیدائش سے متعلق قومی، علاقائی اور عالمی تخمینے: ایک باقاعدہ تجزیہ' کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ 2010 تا 2020 قبل از وقت پیدائش کے حوالے سے علاقائی اور ملکی تخمینے اور رحجانات سامنے لاتا ہے جو اس معاملے میں مختلف علاقوں اور خطوں کے مابین بہت بڑے فرق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ 

اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ قبل از وقت پیدائش محض کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے دنیا کے تمام حصوں کے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور یونان اور امریکہ جیسے بعض بلند آمدنی والے ممالک میں بھی یہ شرح 10 فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔

2020 میں قبل از وقت پیدا ہونے والے تقریباً 65 فیصد بچوں کا تعلق ذیلی صحارا افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تھا جہاں مجموعی طور پر 13 فیصد سے زیادہ بچوں کی پیدائش قبل از وقت ہوئی۔ 

اس حوالے سے بدترین نتائج کے حامل ممالک میں بنگلہ دیش، ملاوی اور پاکستان شامل ہیں۔ ان ممالک میں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی شرح اس مسئلے سے کم ترین حد تک متاثرہ ممالک، سربیا، مولڈووا اور قازقستان کے مقابلے میں تین تا چار گنا زیادہ ہے۔

تحقیق کے ماخذ

اس تحقیق میں پیش کردہ تخمینوں کی بنیاد ممالک کی آبادی اور قومی سطح کے اعدادوشمار پر ہے جن کے ذریعے 2020 سے متعلق عالمی سطح پر قابل موازنہ ملکی تخمینے لگائے گئے ہیں۔ ان تخمینوں کو پہلی مرتبہ اس تحقیقی مقالے اور ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔ 

چونکہ پیدائش کے اندراج اور گھروں کے بجائے ہسپتالوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھ گئی ہے اس لیے قبل از وقت پیدائش کے حوالے سے معلومات میں بھی بہتری آئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود فرق اب بھی باقی ہے اور 92 ممالک کے پاس اس حوالے سے قومی سطح پر درست اعدادوشمار نہیں ہیں۔ 

اس مقالے کے مصںفین نے اس معاملے میں اعدادوشمار کی دستیابی، ان کے معیار کو بہتر بنانے اور ممالک کے مابین ان کے تبادلے کے لیے متواتر اقدامات پر زور دیا ہے۔