انسانی کہانیاں عالمی تناظر

قبل از وقت پیدائش سے ہر سال دس لاکھ بچوں کی اموات

ایتھوپیا میں قبل از وقت پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کو دن رات طبی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔
© UNICEF/Raphael Pouget
ایتھوپیا میں قبل از وقت پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کو دن رات طبی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔

قبل از وقت پیدائش سے ہر سال دس لاکھ بچوں کی اموات

صحت

اقوام متحدہ کے اداروں اور اس کے شراکت داروں کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال قبل از وقت پیدا ہونے والے دس لاکھ بچوں کی اموات کو روکنے کے لئے بچوں کی صحت و بقاء کی صورتحال تیزی سے بہتر بنانے کی غرض سے متفقہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

''قبل از وقت پیدائش: عملی اقدامات کی دہائی' کے عنوان سے جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اندازے کے مطابق 2020 میں 13.4 ملین بچے قبل از وقت پیدا ہوئے تھے جن میں سے قریباً دس لاکھ طبی پیچیدگیوں کے باعث جانبر نہ ہو سکے۔

Tweet URL

یہ رپورٹ بہت سے اداروں نے تیار کی ہے جن میں اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نیز زچہ بچہ اور نوعمر بچوں کی صحت کے لئے شراکت (پی ایم این سی ایچ) بھی شامل ہیں۔ یہ رپورٹ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی اموات پر قابو پانے کے لئے مستقبل کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حجم اور سنگینی پر کبھی زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔

'معطل' پیش رفت

'پی ایم این سی ایچ' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیلگا فوگسٹیڈ کا کہنا ہے کہ ''زچہ بچہ کی صحت اور قبل از وقت پیدائش کی روک تھام کے حوالے سے پیش رفت جمود کا شکار ہے۔''

اس سلسلے میں اب تک حاصل ہونے والی کامیابیاں کووڈ۔19 وبا، موسمیاتی تبدیلی، بڑھتے ہوئے تنازعات اور رہن سہن کے اخراجات میں اضافے جیسے بحرانوں کے تباہ کن ملاپ کی بدولت غارت ہوتی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''حکومتیں، عطیہ دہندگان، نجی شعبہ، سول سوسائٹی، والدین اور طبی پیشہ ور لوگ شراکت میں کام کرتے ہوئے اس خاموش ہنگامی صورتحال کے حوالے سے دنیا کو متنبہ کر سکتے ہیں۔''

اس کے لئے قبل از وقت پیدائش کی روک تھام اور اس حوالے سے طبی نگہداشت کے لئے کی جانے والی کوششوں کو قومی سطح پر صحت و ترقی کے اقدامات میں مرکزی جگہ دینا ہو گی اور ہر جگہ خاندانوں، معاشروں اور معیشتوں کی مدد کرنا ہو گی۔

'بہت جلد پیدائش'

گزشتہ ایک دہائی کے عرصہ میں دنیا کے کسی بھی خطے میں قبل از وقت پیدائش کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ رپورٹ کے مطابق 2010 اور 2020 کے درمیان 152 ملین بچے اپنی پیدائش کے مقررہ وقت سے بہت پہلے پیدا ہوئے تھے۔

قبل از وقت پیدائش حمل کے 37 ہفتوں سے پہلے ہوتی ہے جبکہ مکمل حمل 40 ہفتوں کا ہوتا ہے۔

رپورٹ میں قبل از وقت پیدائش کے حوالے سے لنڈن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے اشتراک سے ڈبلیو ایچ او اور یونیسف کے ترتیب دیے گئے تازہ ترین تخمینے بھی شامل ہیں۔

بچوں کی اموات کی نمایاں وجہ

رپورٹ کے مطابق قبل از وقت پیدائش بچوں میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے جو پانچ سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جانے والے ہر پانچ میں ایک سے زیادہ بچوں کی موت کا سبب ہوتی ہے۔ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی جان بچ بھی جائے تو انہیں عمر بھر طبی مسائل کا سامنا رہتا ہے اور ان کے معذور ہو جانے یا ان کی سست رو بڑھوتری کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کم آمدنی والے ممالک میں قبل از وقت پیدا ہونے والے ہر دس بچوں میں سے ایک کی جان ہی بچ پاتی ہے جبکہ اچھی آمدنی والے ممالک میں ایسے ہر دس میں سے نو سے زیادہ بچے زندہ رہتے ہیں۔

عراق میں قبل از وقت پیدا ہونے والا ایک بچہ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ایک ماہ سے داخل ہے۔
© UNICEF/Murtadha Ridha
عراق میں قبل از وقت پیدا ہونے والا ایک بچہ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ایک ماہ سے داخل ہے۔

تحفظ زندگی کی حکمت عملی

اقوام متحدہ کے ادارے بشمول اقوام متحدہ کا پاپولیشن فنڈ (یو این آئی سی ای ایف)، ڈبلیو ایچ او اور یونیسف زندگیوں کو بچانے کے لئے متعدد اقدامات پر زور دے رہے ہیں جن میں نومولود بچوں کی صحت پر سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا، قومی طبی پالیسیوں پر عملدرآمد کی رفتار میں تیزی لانا، ہر شعبے میں ہونے والی کوششوں کو مربوط کرنا اور علاج کو معیاری اور اس تک رسائی کو مساوی بنانے میں مدد دینے کے لئے مقامی لوگوں کی قیادت میں اختراع اور تحقیق میں معاونت کرنا شامل ہیں۔

ڈبلیو ایچ او میں زچہ بچہ، نوعمر بچوں بالغوں اور معمر افراد کی صحت سے متعلق شعبے کے ڈائریکٹر انشو بینرجی نے کہا ہے کہ ''قبل از وقت پیدا ہونے والے ان کمزور بچوں اور ان کے خاندانوں کی معیاری طبی نگہداشت یقینی بنانا بچوں کی صحت اور بقا میں بہتری لانے کے لئے لازمی اہمیت رکھتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ''اس حوالے سے قبل از وقت پیدائش کی روک تھام کے لئے پیش رفت بھی ہونی چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر خاتون کو حمل سے پہلے اور اس کے دوران معیاری طبی خدمات تک رسائی حاصل ہو اور وہ بچے کی صحت کو لاحق خطرات کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہو۔''