انسانی کہانیاں عالمی تناظر

لیبیا: طوفانی سیلاب سے متاثرہ اڑھائی لاکھ افراد کی مدد کی اپیل

طوفانی سیلاب کے بعد لیبیا کے شہر درنا کا ایک منظر۔
© UNICEF/Abdulsalam Alturki
طوفانی سیلاب کے بعد لیبیا کے شہر درنا کا ایک منظر۔

لیبیا: طوفانی سیلاب سے متاثرہ اڑھائی لاکھ افراد کی مدد کی اپیل

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے امدادی کارکن لیبیا میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے ہزاروں متاثرین کو اشد ضروری مدد پہنچانے کے لیے ہرممکن تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ اس سیلاب میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور مزید ہزاروں لاپتہ ہیں۔

یہ تباہی اتوار کو اس وقت آئی جب سمندری طوفان ڈینیئل کے نتیجے میں آنے والی تیز بارشوں کے باعث ساحلی شہر دیرنہ کے قریب دو ڈیم ٹوٹ گئے جس سے پورا علاقہ سمندر بُرد ہو گیا۔

Tweet URL

لیبیا میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کی نمائندہ مشیل سیرواڈئی نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ صورتحال انتہائی حد تک ہولناک ہے۔ 

بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت

انہوں نے کہا کہ یونیسف نے 10,000 لوگوں کے لیے طبی سازوسامان اور ادویات بھیجی ہیں۔ یہ سامان تباہی کے بعد ابتدائی دو روز میں مہیا کیا گیا۔ اس کے علاوہ صحت و صفائی کے سامان پر مشتمل 1,100 تھیلے اور کپڑے بھی بھیجے گئے ہیں لیکن تباہی کے حجم کو دیکھتے ہوئے یہ مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ناصرف بے گھر ہونے والے لوگوں بلکہ پناہ گاہوں میں موجود متاثرین کے لیے بھی تحفظ زندگی کے لیے درکار سامان کے ساتھ نفسیاتی مدد کی فوری ضرورت ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس خوفناک رات کو گزارنے کے بعد بے یارومددگار ہیں۔ 

اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 5,000 سے زیادہ لوگوں کو امدادی خوراک مہیا کی ہے۔ 

ڈبلیو ایف پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی مکین نے کہا ہے کہ یہ تباہ کن سیلاب ایسے ملک میں آیا ہے جہاں شدید سیاسی بحران کے باعث پہلے ہی بہت سے لوگ مایوس کن حالات میں جی رہے ہیں۔ 

لیبیا قدرتی آفات کے اثرات کے مقابل خاص طور پر غیرمحفوظ ہے کیونکہ وہاں کوئی ایک حکومت نہیں ہے۔ 2014 سے ملک کے دارالحکومت طرابلس میں عبوری اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور مشرقی حصے میں ایک دوسری حکومت قائم ہے جبکہ اس کے علاقے میں بہت سے مسلح گروہوں نے بھی اپنی عملداری قائم کر رکھی ہے۔ 

اکہتر ملین ڈالر امداد کی اپیل 

اقوام متحدہ میں امدادی امور کے رابطہ دفتر 'او سی ایچ اے' نے عطیہ دہندگان سے 71.4 ملین ڈالر مہیا کرنے کی ہنگامی اپیل کی ہے تاکہ لیبیا میں سیلاب سے متاثرہ تقریباً 250,000 لوگوں کی آئندہ تین ماہ کے لیے ضروریات پوری کی جا سکیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ مزید مدد نہ پہنچی تو اموات کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ 

'او سی ایچ اے' کا اندازہ ہے کہ طوفان اور سیلاب سے براہ راست متاثر ہونے والے علاقوں میں 880,000 سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ 

'او سی ایچ اے' کے سربراہ مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ سبھی سے کہا جا رہا ہے کہ متاثرین کے لیے زیادہ سے زیادہ مدد اکٹھی کی جائے۔ اقوام متحدہ اس معاملے میں بین الاقوامی امداد اکٹھی کرنے کے لیے سب سے پہلے مدد کو پہنچنے والوں اور لیبیا کے حکام کے اشتراک سے ایک مضبوط ٹیم تعینات کر رہا ہے۔ 

دریں اثنا، ہنگامی امدادی اقدامات کرنے والی ٹیموں کے پاس ملبے کے ڈھیروں سے لوگوں کو نکالنے کے لیے وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ 

مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کا حجم بہت خوفناک ہے اور پورے کے پورے علاقے چشم زدن میں نقشے سے مٹ گئے اور پانی پورے گھرانوں کو سنبھلنے سے پہلے ہی بہا لے گیا۔ 

سنڈی مکین کے مطابق زندگی کے المناک نقصان کے علاوہ دیرنہ میں ہزاروں خاندان خوراک اور پناہ سے محروم ہیں۔ 

ڈبلیو ایف پی نے کہا ہے کہ آئندہ تین ماہ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 100,000 لوگوں کو ماہانہ مدد کی فراہمی اس کی ہنگامی کارروائیوں کا ہدف ہے۔ 

سیلابی آفت میں موسمیاتی تبدیل کا کردار

یہ تباہ کن طوفان موسمیاتی حادثات اور جنگلوں کی تباہ کن آگ سے لے کر شدید گرمی کی لہروں تک موسمی شدت کے ریکارڈ توڑ واقعات کے سال میں آیا ہے۔ 

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے سربراہ پروفیسر پیٹری ٹالس نے کہا ہے کہ لیبیا کے المیے نے ایسے ممالک میں شدید موسم کے تباہ کن اور پھیلتے ہوئے اثرات کو واضح کیا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مقابل بہت کمزور ہیں۔ 

انہوں ںے زور دیا کہ اس سے کئی طرح کی قدرتی آفات کے بارے میں بروقت آگاہی دینے والے نظام کی ضرورت سامنے آتی ہے جسے 2027 تک دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے اقوام متحدہ کی ہدایات کی مطابقت سے حکومت اور معاشرے کی ہر سطح پر دستیاب ہونا چاہیے۔