انسانی کہانیاں عالمی تناظر

امریکہ سے چین تک گرمی کی لہر اور جنگلوں میں لگی آگ سے تباہی

شمالی کرے پر اس سال پڑنے والی گرمی سے یورپ بھر کو جنگلوں میں لگی آگ سے نقصانات کا سامنا ہے۔
© Unsplash/Caleb Cook
شمالی کرے پر اس سال پڑنے والی گرمی سے یورپ بھر کو جنگلوں میں لگی آگ سے نقصانات کا سامنا ہے۔

امریکہ سے چین تک گرمی کی لہر اور جنگلوں میں لگی آگ سے تباہی

موسم اور ماحول

امریکہ سے چین تک دنیا بھر کے ممالک شدید گرمی سے نبرد آزما ہیں جبکہ عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ شمالی کرے میں حالیہ موسم گرما کے دوران شدید موسمی کیفیات لوگوں کی صحت اور ماحول کو سخت نقصان پہنچا رہی ہیں۔

خشکی اور سمندر کا درجہ حرارت اب تک کی شدید ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ جنگلوں میں لگنے والی آگ نے تباہی مچائی ہے، اس سے درجنوں انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے اور ہزاروں لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

Tweet URL

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ادارے اور یورپی کمیشن کی 'کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس' نے بتایا ہے کہ نئی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جولائی معلوم تاریخ کا گرم ترین مہینہ رہا۔

نیا معمول 

ڈبلیو ایم او نے کہا ہے کہ 16 جولائی کو چین کے صوبے شِنگ جینگ میں درجہ حرارت 52.2 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا جو ایک نیا قومی ریکارڈ تھا۔ امریکہ کے شہر فینیکس میں بھی متواتر 31 روز تک درجہ حرارت 110 فارن ہائیٹ (اندازاً 43.3 ڈگری سیلسیئس) رہا۔ 

سطح سمندر کے درجہ حرارت نے بھی نئی بلندیوں کو چھوا۔ اس دوران بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس میں فلوریڈا کے ساحل کے قریب سمندر میں گرمی کی شدید لہریں پیدا ہوئیں۔ امریکہ کی اس ریاست میں میامی شہر سمیت بہت سے علاقے گرمی کی طویل اور شدید لہروں کی زد میں رہے۔ 

'ڈبلیو ایم او' کے سیکرٹری جنرل پیٹری ٹالس نے کہا ہے کہ ہمارے گرم ہوتے ماحول میں شدید موسمی کیفیات تواتر سے رونما ہو رہی ہیں جن سے انسانی صحت، ماحولی نظام، معیشتوں، زراعت، توانائی اور پانی کی فراہمی پر نمایاں اثر پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں جلد از جلد کمی لانے کی بڑھتی ہوئی ہنگامی ضرورت واضح ہوتی ہے۔ 

علاوہ ازیں ہمیں لوگوں کو ایسے حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد دینے کی کوششیں بڑھانا ہوں گی جو بدقسمتی سے نیا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ 

جنگلوں کی آگ اور آبادیوں سے انخلا 

ڈبلیو ایم او نے کہا ہے کہ حالیہ عرصہ میں فرانس، یونان، اٹلی، سپین، الجزائر اور تیونس میں دن اور رات دونوں وقت درجہ حرارت نے نئی بلندی کو چھوا ہے۔ 

مثال کے طور پر سپین کے شہر فیگیرس میں 18 جولائی کو درجہ حرارت 45.4 ڈگری سیلسیئس تک جا پہنچا تھا جو ایک ریکارڈ ہے۔ اسی طرح 24 جولائی کو اٹلی کے شہر سارڈینیا میں درجہ حرارت 48.2 ڈگری سیلسیئس رہا جبکہ 23 جولائی کو الجزائر اور تیونس میں درجہ حرارت بالترتیب 48.7 اور 49.0 ڈگری سیلسیئس ریکارڈ کیا گیا۔ 

اسی دوران 17 جولائی سے یونان کے جزائر رہوڈز، ایویا اور کورفو کے جنگلوں میں لگنے والی آگ کے باعث قریبی علاقوں میں رہنے والے سینکڑوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ الجزائر میں ایسی ہی آگ میں درجنوں انسانی جانیں چلی گئیں۔ 

قطب شمالی میں آگ 

گرم اور خشک حالات کینیڈا میں بھی جنگلوں میں قبل از وقت اور شدید آگ لگنے کا باعث بنے جہاں 120,000 سے زیادہ  لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنا پڑے۔ 

کینیڈا میں جنگلوں کی آگ پر قابو پانے کے بین الاداری مرکز کے مطابق اس آگ سے 1.1 ملین ہیکٹر رقبہ جل گیا ہے جبکہ گزشتہ دس برس میں ایسے واقعات میں مجموعی متاثرہ رقبہ تقریباً 800,000 ہیکٹر تھا۔ 

جنگلوں میں آگ لگنے سے پیدا ہونے والے دھوئیں سے فضا آلودہ ہو گئی جس سے پورے شمالی امریکہ میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ علاوہ ازیں، حالیہ ایام میں قطب شمالی کے قریب کینیڈا کے علاقے میں بھی جنگلوں میں آگ لگنے کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ 

ڈبلیو ایم او اور اس کے شراکت دار شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے ایسے واقعات کی پیش گوئی اور ان کے بارے میں بروقت انتباہ کا انتظام کر رہے ہیں تاکہ زندگیوں اور روزگار کو تحفظ دیا جا سکے۔ یہ اقدامات 2027 تک دنیا کے تمام لوگوں کو اس پیش گوئی اور بروقت انتباہ کی یقینی سہولت مہیا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے منصوبے کی مطابقت سے کیے جا رہے ہیں۔